احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ:
باب: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سچے خواب کے ذریعہ ہوئی۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 6982
حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب. وحدثني عبد الله بن محمد حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر قال الزهري فاخبرني عروة عن عائشة رضي الله عنها انها قالت اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، فكان ياتي حراء فيتحنث فيه- وهو التعبد- الليالي ذوات العدد، ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فتزوده لمثلها، حتى فجئه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فيه فقال اقرا. فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «فقلت ما انا بقارئ فاخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم ارسلني. فقال اقرا. فقلت ما انا بقارئ. فاخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني فقال اقرا. فقلت ما انا بقارئ. فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني فقال اقرا باسم ربك الذي خلق». حتى بلغ: {ما لم يعلم} فرجع بها ترجف بوادره حتى دخل على خديجة فقال: «زملوني زملوني». فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال: «يا خديجة ما لي». واخبرها الخبر وقال: «قد خشيت على نفسي». فقالت له كلا ابشر، فوالله لا يخزيك الله ابدا، إنك لتصل الرحم، وتصدق الحديث، وتحمل الكل، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق. ثم انطلقت به خديجة حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزى بن قصي- وهو ابن عم خديجة اخو ابيها، وكان امرا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العربي فيكتب بالعربية من الإنجيل ما شاء الله ان يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي- فقالت له خديجة اي ابن عم اسمع من ابن اخيك. فقال ورقة ابن اخي ماذا ترى فاخبره النبي صلى الله عليه وسلم ما راى فقال ورقة هذا الناموس الذي انزل على موسى، يا ليتني فيها جذعا اكون حيا، حين يخرجك قومك. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اومخرجي هم». فقال ورقة نعم، لم يات رجل قط بما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك انصرك نصرا مؤزرا. ثم لم ينشب ورقة ان توفي، وفتر الوحي فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم فيما بلغنا حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رءوس شواهق الجبال، فكلما اوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه، تبدى له جبريل فقال يا محمد إنك رسول الله حقا. فيسكن لذلك جاشه وتقر نفسه فيرجع، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك، فإذا اوفى بذروة جبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك. قال ابن عباس: {فالق الإصباح} ضوء الشمس بالنهار، وضوء القمر بالليل.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل بن خالد نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) کہ مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سونے کی حالت میں سچے خواب کے ذریعہ ہوئی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آ جاتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں چلے جاتے اور اس میں تنہا اللہ کی یاد کرتے تھے چند مقررہ دنوں کے لیے (یہاں آتے) اور ان دنوں کا توشہ بھی ساتھ لاتے۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور وہ پھر اتنا ہی توشہ آپ کے ساتھ کر دیتیں یہاں تک کہ حق آپ کے پاس اچانک آ گیا اور آپ غار حرا ہی میں تھے۔ چنانچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آخر اس نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دابا اور خوب دابا جس کی وجہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے مجھے ایسا دابا کہ میں بے قابو ہو گیا یا انہوں نے اپنا زور ختم کر دیا اور پھر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا کہ پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔ الفاظ «ما لم يعلم‏» تک۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو آپ کے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے) پھڑک رہے تھے۔ جب گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تو فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو ‘ مجھے چادر اڑھا دو، چنانچہ آپ کو چادر اڑھا دی گئی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہو گیا تو فرمایا کہ خدیجہ میرا حال کیا ہو گیا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سارا حال بیان کیا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ لیکن خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ خوش رہئیے اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، بات سچی بولتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر آپ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس لائیں جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد کے بھائی کے بیٹے تھے۔ جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے اور وہ جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے، وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو گئے تھے اور بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھائی! اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا وہ سنایا تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر آیا تھا۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا جب تمہیں تمہاری قوم نکال دے گی اور زندہ رہتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا کہ ہاں۔ جب بھی کوئی نبی و رسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آ گئے اور کہا کہ یا محمد! آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون ہوتا اور آپ واپس آ جاتے لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی رہی تو آپ نے ایک مرتبہ اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (سورۃ الانعام) میں لفظ «‏‏‏‏فالق الإصباح‏» سے مراد دن میں سورج کی روشنی اور رات میں چاند کی روشنی ہے۔

Share this: