احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ: {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ}:
باب: آیت کی تفسیر ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ افسوس ہے تم پر، کیا تم مجھے یہ خبر دیتے ہو کہ میں قبر سے پھر دوبارہ نکالا جاؤں گا، مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں اور وہ دونوں والدین اللہ سے فریاد کر رہے ہیں (اور اس اولاد سے کہہ رہے ہیں) ارے تیری کم بختی تو ایمان لا بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ تو اس پر وہ کہتا کیا ہے کہ یہ بس اگلوں کے ڈھکوسلے ہیں“۔
وقال مجاهد: تفيضون، تقولون: وقال بعضهم: اثرة، واثرة، واثارة بقية من علم، وقال ابن عباس: بدعا من الرسل لست باول الرسل، وقال غيره: ارايتم هذه الالف إنما هي توعد إن صح ما تدعون لا يستحق ان يعبد وليس قوله ارايتم برؤية العين إنما هو اتعلمون ابلغكم ان ما تدعون من دون الله خلقوا شيئا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «تفيضون‏» کا معنی جو تم زبان سے نکالتے ہو، کہتے ہو۔ بعضوں نے کہا «أثرة» اور «أثرة» (بضم ھمزہ) اور «أثارة» (تینوں قرآت ہیں) ان کا معنی باقی ماندہ علم ہے۔ (حدیث پر اسی سے «أثر» کا لفظ بولا گیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا باقی ماندہ علم ہے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «بدعا من الرسل‏» کا یہ معنی ہے کہ میں ہی کچھ پہلا پیغمبر دنیا میں نہیں آیا۔ اوروں نے کہا «أرأيتم‏» (الاحقاف: 4) میں ہمزہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے۔ یعنی اگر تمہارا دعویٰ صحیح ہو تو یہ چیزیں جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بتاؤ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے؟ «احقاف» قوم عاد کی زمین کا نام تھا جہاں ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ «احقاف»، «حقف» کی جمع ہے۔ «مطلق» ریت کے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ اس قوم پر بادل کے ساتھ تیز ہوا کا عذاب آیا تھا جس سے سب ہلاک ہو گئے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4827
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن يوسف بن ماهك، قال: كان مروان على الحجاز استعمله معاوية، فخطب، فجعل يذكر يزيد بن معاوية لكي يبايع له بعد ابيه، فقال له عبد الرحمن بن ابي بكر شيئا، فقال: خذوه، فدخل بيت عائشة، فلم يقدروا، فقال مروان: إن هذا الذي انزل الله فيه والذي قال لوالديه اف لكما اتعدانني سورة الاحقاف آية 17، فقالت عائشة من وراء الحجاب:"ما انزل الله فينا شيئا من القرآن إلا ان الله انزل عذري".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہ مروان کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (معاویہ رضی اللہ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني‏» کہ اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔

Share this: