احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

29: 29- بَابُ مَنْ قَالَ فِي الْخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ أَمَّا بَعْدُ:
باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا۔
رواه عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
‏‏‏‏ اس کو عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 922
وقال محمود: حدثنا ابو اسامة، قال: حدثنا هشام بن عروة، قال: اخبرتني فاطمة بنت المنذر، عن اسماء بنت ابي بكر، قالت: دخلت على عائشة رضي الله عنها والناس يصلون، قلت: ما شان الناس ؟ فاشارت براسها إلى السماء، فقلت: آية، فاشارت براسها اي نعم، قالت: فاطال رسول الله صلى الله عليه وسلم جدا حتى تجلاني الغشي وإلى جنبي قربة فيها ماء ففتحتها فجعلت اصب منها على راسي فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد تجلت الشمس فخطب الناس وحمد الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد، قالت: ولغط نسوة من الانصار فانكفات إليهن لاسكتهن فقلت لعائشة ما قال، قالت: قال: ما من شيء لم اكن اريته إلا قد رايته في مقامي هذا حتى الجنة والنار، وإنه قد اوحي إلي انكم تفتنون في القبور مثل او قريب من فتنة المسيح الدجال، يؤتى احدكم فيقال له ما علمك بهذا الرجل فاما المؤمن او قال الموقن شك هشام، فيقول هو رسول الله هو محمد صلى الله عليه وسلم: جاءنا بالبينات والهدى، فآمنا واجبنا واتبعنا وصدقنا، فيقال له: نم صالحا قد كنا نعلم إن كنت لتؤمن به، واما المنافق او قال المرتاب شك هشام فيقال له: ما علمك بهذا الرجل، فيقول: لا ادري سمعت الناس يقولون شيئا، فقلت: قال هشام: فلقد قالت لي فاطمة فاوعيته غير انها ذكرت ما يغلظ عليه.
اور محمود بن غیلان (امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ) نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے (اس بے وقت نماز پر تعجب سے پوچھا کہ) یہ کیا ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا (کیونکہ سورج گہن ہو گیا تھا) اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی۔ قریب ہی ایک مشک میں پانی بھرا رکھا تھا۔ میں اسے کھول کر اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر جب سورج صاف ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کر دی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مناسب تعریف بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا «امابعد» ! اتنا فرمانا تھا کہ کچھ انصاری عورتیں شور کرنے لگیں۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھی کہ انہیں چپ کراؤں (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اچھی طرح سن سکوں مگر میں آپ کا کلام نہ سن سکی) تو پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ بہت سی چیزیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، آج اپنی اس جگہ سے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ تک میں نے آج دیکھی۔ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بھی بتایا گیا کہ قبروں میں تمہاری ایسی آزمائش ہو گی جیسے کانے دجال کے سامنے یا اس کے قریب قریب۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن یا یہ کہا کہ یقین والا (ہشام کو شک تھا) کہے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس ہدایت اور واضح دلائل لے کر آئے، اس لیے ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت قبول کی، ان کی اتباع کی اور ان کی تصدیق کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو تو صالح ہے، آرام سے سو جا۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تیرا ان پر ایمان ہے۔ ہشام نے شک کے اظہار کے ساتھ کہا کہ رہا منافق یا شک کرنے والا تو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ ہشام نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت منذر نے جو کچھ کہا تھا۔ میں نے وہ سب یاد رکھا۔ لیکن انہوں نے قبر میں منافقوں پر سخت عذاب کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔

Share this: