احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

77: 77- بَابُ لاَ يَقُولُ فُلاَنٌ شَهِيدٌ:
باب: قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شخص شہید ہے۔
قال ابو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم"الله اعلم بمن يجاهد في سبيله والله اعلم بمن يكلم في سبيله".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2898
حدثنا قتيبة، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم التقى هو والمشركون فاقتتلوا فلما مال رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عسكره ومال الآخرون إلى عسكرهم وفي اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل لا يدع لهم شاذة، ولا فاذة إلا اتبعها يضربها بسيفه، فقال: ما اجزا منا اليوم احد كما اجزا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اما إنه من اهل النار"، فقال رجل: من القوم انا صاحبه، قال: فخرج معه كلما وقف وقف معه، وإذا اسرع اسرع معه، قال: فجرح الرجل جرحا شديدا فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه بالارض وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل على سيفه فقتل نفسه، فخرج الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اشهد انك رسول الله، قال: وما ذاك، قال الرجل: الذي ذكرت آنفا انه من اهل النار، فاعظم الناس ذلك، فقلت: انا لكم به فخرجت في طلبه، ثم جرح جرحا شديدا فاستعجل الموت، فوضع نصل سيفه في الارض وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل عليه فقتل نفسه، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك"إن الرجل ليعمل عمل اهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من اهل النار، وإن الرجل ليعمل عمل اهل النار فيما يبدو للناس وهو من اهل الجنة".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا، لڑائی لڑنے میں ان کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر آ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سرگرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے، ہم میں سے کوئی بھی شخص اس طرح نہ لڑ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا (دیکھوں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیوں دوزخی فرمایا ہے) بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا، جب کبھی وہ کھڑا ہو جاتا تو یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا۔ اس لیے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی۔ اب وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ آپ کا فرمان بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کر لیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔

Share this: