احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

37: 37- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا ”تمتع یا قربانی کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد الحرام کے پاس نہ رہتے ہوں“۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1572
وقال ابو كامل فضيل بن حسين البصري , حدثنا ابو معشر البراء , حدثنا عثمان بن غياث , عن عكرمة , عن ابن عباس رضي الله عنهما انه سئل عن متعة الحج , فقال اهل المهاجرون والانصار وازواج النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع: واهللنا فلما قدمنا مكة , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اجعلوا إهلالكم بالحج عمرة إلا من قلد الهدي فطفنا بالبيت وبالصفا , والمروة واتينا النساء ولبسنا الثياب , وقال: من قلد الهدي فإنه لا يحل له حتى يبلغ الهدي محله , ثم امرنا عشية التروية ان نهل بالحج فإذا فرغنا من المناسك جئنا فطفنا بالبيت , وبالصفا , والمروة فقد تم حجنا , وعلينا الهدي , كما قال الله تعالى: فما استيسر من الهدي فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام في الحج وسبعة إذا رجعتم سورة البقرة آية 196 إلى امصاركم الشاة تجزي فجمعوا نسكين في عام بين الحج والعمرة فإن الله تعالى انزله في كتابه وسنه نبيه صلى الله عليه وسلم واباحه للناس غير اهل مكة , قال الله: ذلك لمن لم يكن اهله حاضري المسجد الحرام واشهر الحج التي ذكر الله تعالى في كتابه شوال , وذو القعدة , وذو الحجة فمن تمتع في هذه الاشهر فعليه دم او صوم , والرفث: الجماع , والفسوق: المعاصي , والجدال: المراء.
اور ابو کامل فضیل بن حسین بصریٰ نے کہا کہ ہم سے ابومعشر یوسف بن یزید براء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن غیاث نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حج میں تمتع کے متعلق پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مہاجرین انصار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اور ہم سب نے احرام باندھا تھا۔ جب ہم مکہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے احرام کو حج اور عمرہ دونوں کے لیے کر لو لیکن جو لوگ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لائے ہیں۔ (وہ عمرہ کرنے کے بعد حلال نہیں ہوں گے) چنانچہ ہم نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی تو اپنا احرام کھول ڈالا اور ہم اپنی بیویوں کے پاس گئے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ لے (یعنی قربانی نہ ہولے) ہمیں (جنہوں نے ہدی ساتھ نہیں لی تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھویں تاریخ کی شام کو حکم دیا کہ ہم حج کا احرام باندھ لیں۔ پھر جب ہم مناسک حج سے فارغ ہو گئے تو ہم نے آ کر بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر ہمارا حج پورا ہو گیا اور اب قربانی ہم پر لازم ہوئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جسے قربانی کا جانور میسر ہو (تو وہ قربانی کرے) اور اگر کسی کو قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے حج میں اور سات دن گھر واپس ہونے پر رکھے (قربانی میں) بکری بھی کافی ہے۔ تو لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں عبادتیں ایک ہی سال میں ایک ساتھ ادا کیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں یہ حکم نازل کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خود عمل کر کے تمام لوگوں کے لیے جائز قرار دیا تھا۔ البتہ مکہ کے باشندوں کا اس سے استثناء ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد الحرام کے پاس رہنے والے نہ ہوں۔ اور حج کے جن مہینوں کا قرآن میں ذکر ہے وہ شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ ان مہینوں میں جو کوئی بھی تمتع کرے وہ یا قربانی دے یا اگر مقدور نہ ہو تو روزے رکھے۔ اور «رفث» کا معنی جماع (یا فحش باتیں) اور «فسوق» گناہ اور «جدال» لوگوں سے جھگڑنا۔

Share this: