احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

14: 14- بَابُ هِبَةِ الرَّجُلِ لاِمْرَأَتِهِ وَالْمَرْأَةِ لِزَوْجِهَا:
باب: خاوند کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے خاوند کو کچھ ہبہ کر دینا۔
قال إبراهيم: جائزة، وقال عمر بن عبد العزيز: لا يرجعان، واستاذن النبي صلى الله عليه وسلم نساءه في ان يمرض في بيت عائشة، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: العائد في هبته كالكلب يعود في قيئه، وقال الزهري: فيمن قال لامراته هبي لي بعض صداقك او كله، ثم لم يمكث إلا يسيرا حتى طلقها فرجعت فيه، قال: يرد إليها إن كان خلبها وإن كانت اعطته عن طيب نفس ليس في شيء من امره خديعة جاز، قال الله تعالى: فإن طبن لكم عن شيء منه نفسا فكلوه سورة النساء آية 4.
ابراہیم نخعی نے کہا کہ جائز ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ دونوں اپنا ہبہ واپس نہیں لے سکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض کے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر گزارنے کی اپنی دوسری بیویوں سے اجازت مانگی تھی (اور ازواج مطہرات نے اپنی اپنی باری ہبہ کر دی تھی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنا ہبہ واپس لینے والا شخص اس کتے کی طرح ہے جو اپنی ہی قے چاٹتا ہے۔ زہری نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اپنا کچھ مہر یا سارا مہر مجھے ہبہ کر دے (اور اس نے کر دیا) اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور بیوی نے (اپنے مہر کا ہبہ) واپس مانگا تو زہری نے کہا کہ اگر شوہر نے محض دھوکہ کے لیے ایسا کیا تھا تو اسے مہر واپس کرنا ہو گا۔ لیکن اگر بیوی نے اپنی خوشی سے مہر ہبہ کیا، اور شوہر نے بھی کسی قسم کا دھوکہ اس سلسلے میں اسے نہیں دیا، تو یہ صورت جائز ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «فإن طبن لكم عن شىء منه نفسا‏» اگر تمہاری بیویاں دل سے اور خوش ہو کر تمہیں اپنے مہر کا کچھ حصہ دے دیں (تو لے سکتے ہو)۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2588
حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن معمر، عن الزهري، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، قالت عائشة رضي الله عنها"لما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم فاشتد وجعه استاذن ازواجه ان يمرض في بيتي، فاذن له، فخرج بين رجلين تخط رجلاه الارض، وكان بين العباس وبين رجل آخر، فقال عبيد الله: فذكرت لابن عباس ما قالت عائشة، فقال لي: وهل تدري من الرجل الذي لم تسم عائشة ؟ قلت: لا، قال: هو علي بن ابي طالب".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھی اور تکلیف شدید ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کی اجازت چاہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویوں نے اجازت دے دی تو آپ اس طرح تشریف لائے کہ دونوں قدم زمین پر رگڑ کھا رہے تھے۔ آپ اس وقت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک اور صاحب کے درمیان تھے۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کیا۔ تو انہوں نے مجھ سے پوچھا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جن کا نام نہیں لیا، جانتے ہو وہ کون تھے؟ میں نے کہا کہ نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔

Share this: