احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

13: 13- بَابُ بَرَكَةِ الْغَازِي فِي مَالِهِ حَيًّا وَمَيِّتًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُلاَةِ الأَمْرِ:
باب: اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کرام کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے بادشاہان اسلام کے ساتھ ہو کر لڑے کیسی برکت دی تھی، اس کا بیان۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3129
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال: قلت: لابي اسامة احدثكم هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن الزبير، قال: لما وقف الزبير يوم الجمل دعاني فقمت إلى جنبه، فقال: يا بني إنه لا يقتل اليوم إلا ظالم او مظلوم، وإني لا اراني إلا ساقتل اليوم مظلوما وإن من اكبر همي لديني افترى يبقي ديننا من مالنا شيئا، فقال: يا بني بع مالنا فاقض ديني واوصى بالثلث وثلثه لبنيه يعني بني عبد الله بن الزبير، يقول: ثلث الثلث فإن فضل من مالنا فضل بعد قضاء الدين شيء فثلثه لولدك، قال هشام: وكان بعض ولد عبد الله قد وازى بعض بني الزبير خبيب وعباد وله يومئذ تسعة بنين وتسع بنات، قال عبد الله: فجعل يوصيني بدينه، ويقول: يا بني إن عجزت عنه في شيء فاستعن عليه مولاي، قال: فوالله ما دريت ما اراد حتى، قلت: يا ابت من مولاك، قال: الله، قال: فوالله ما وقعت في كربة من دينه إلا، قلت: يا مولى الزبير اقض عنه دينه فيقضيه فقتل الزبير رضي الله عنه ولم يدع دينارا ولا درهما إلا ارضين منها الغابة وإحدى عشرة دارا بالمدينة ودارين بالبصرة ودارا بالكوفة ودارا بمصر، قال: وإنما كان دينه الذي عليه ان الرجل كان ياتيه بالمال، فيستودعه إياه، فيقول الزبير: لا ولكنه سلف فإني اخشى عليه الضيعة وما ولي إمارة قط، ولا جباية خراج، ولا شيئا إلا ان يكون في غزوة مع النبي صلى الله عليه وسلم او مع ابي بكر وعمر وعثمان رضي الله عنهم، قال عبد الله بن الزبير: فحسبت ما عليه من الدين فوجدته الفي الف ومائتي الف، قال: فلقي حكيم بن حزام عبد الله بن الزبير، فقال: يا ابن اخي كم على اخي من الدين فكتمه، فقال: مائة الف، فقال: حكيم والله ما ارى اموالكم تسع لهذه، فقال له: عبد الله افرايتك إن كانت الفي الف ومائتي الف، قال: ما اراكم تطيقون هذا فإن عجزتم عن شيء منه فاستعينوا بي، قال: وكان الزبير اشترى الغابة بسبعين ومائة الف فباعها عبد الله بالف الف وست مائة الف ثم قام، فقال: من كان له على الزبير حق فليوافنا بالغابة، فاتاه عبد الله بن جعفر وكان له على الزبير اربع مائة الف، فقال لعبد الله: إن شئتم تركتها لكم، قال عبد الله: لا، قال: فإن شئتم جعلتموها فيما تؤخرون إن اخرتم، فقال عبد الله: لا، قال: قال: فاقطعوا لي قطعة، فقال عبد الله: لك من هاهنا إلى هاهنا، قال: فباع منها فقضى دينه فاوفاه وبقي منها اربعة اسهم ونصف، فقدم على معاوية وعنده عمرو بن عثمان والمنذر بن الزبير وابن زمعة، فقال له معاوية: كم قومت الغابة، قال: كل سهم مائة الف، قال: كم بقي، قال: اربعة اسهم ونصف، قال المنذر بن الزبير: قد اخذت سهما بمائة الف، قال عمرو بن عثمان: قد اخذت سهما بمائة الف، وقال ابن زمعة: قد اخذت سهما بمائة الف، فقال معاوية: كم بقي، فقال: سهم ونصف، قال: قد اخذته بخمسين ومائة الف، قال: وباع عبد الله بن جعفر نصيبه من معاوية بست مائة الف، فلما فرغ ابن الزبير من قضاء دينه، قال: بنو الزبير اقسم بيننا ميراثنا، قال: لا والله لا اقسم بينكم حتى انادي بالموسم اربع سنين الا من كان له على الزبير دين فلياتنا فلنقضه، قال: فجعل كل سنة ينادي بالموسم فلما مضى اربع سنين قسم بينهم، قال: فكان للزبير اربع نسوة ورفع الثلث، فاصاب كل امراة الف الف ومائتا الف فجميع ماله خمسون الف الف ومائتا الف.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابواسامہ سے پوچھا ‘ کیا آپ لوگوں سے ہشام بن عروہ نے یہ حدیث اپنے والد سے بیان کی ہے کہ ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جمل کی جنگ کے موقع پر جب زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو مجھے بلایا میں ان کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا ‘ انہوں نے کہا بیٹے! آج کی لڑائی میں ظالم مارا جائے گا یا مظلوم میں سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضوں کی ہے۔ کیا تمہیں بھی کچھ اندازہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہمارا کچھ مال بچ سکے گا؟ پھر انہوں نے کہا بیٹے! ہمارا مال فروخت کر کے اس سے قرض ادا کر دینا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی میرے لیے اور اس تہائی کے تیسرے حصہ کی وصیت میرے بچوں کے لیے کی ‘ یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے لیے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ اس تہائی کے تین حصے کر لینا اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے اموال میں سے کچھ بچ جائے تو اس کا ایک تہائی تمہارے بچوں کے لیے ہو گا۔ ہشام راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بعض لڑکے زبیر رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کے ہم عمر تھے۔ جیسے خبیب اور عباد۔ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے اس وقت نو لڑکے اور نو لڑکیاں تھیں۔ عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ پھر زبیر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مالک و مولا سے اس میں مدد چاہنا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا ‘ میں نے پوچھا کہ بابا آپ کے مولا کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پاک! عبداللہ نے بیان کیا ‘ قسم اللہ کی! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی ‘ کہ اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ جب زبیر رضی اللہ عنہ (اسی موقع پر) شہید ہو گئے تو انہوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ تو اراضی کی صورت میں تھا اور اسی میں غابہ کی زمین بھی شامل تھی۔ گیارہ مکانات مدینہ میں تھے ‘ دو مکان بصرہ میں تھے ‘ ایک مکان کوفہ میں تھا اور ایک مصر میں تھا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا سارا قرض ہو گیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے کہ نہیں البتہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمے بطور قرض رہے۔ کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہو جانے کا بھی خوف ہے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کسی علاقے کے امیر کبھی نہیں بنے تھے۔ نہ وہ خراج وصول کرنے پر کبھی مقرر ہوئے اور نہ کوئی دوسرا عہدہ انہوں نے قبول کیا ‘ البتہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سات

Share this: