احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا}:
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے تجھ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے“۔
وقال مجاهد: بورا هالكين، سيماهم في وجوههم: السحنة، وقال منصور: عن مجاهد، التواضع، شطاه: فراخه، فاستغلظ: غلظ، سوقه: الساق حاملة الشجرة ويقال، دائرة السوء: كقولك رجل السوء ودائرة السوء العذاب، تعزروه: تنصروه، شطاه: شطء السنبل تنبت الحبة عشرا او ثمانيا وسبعا فيقوى بعضه ببعض فذاك قوله تعالى: فآزره: قواه ولو كانت واحدة لم تقم على ساق وهو مثل ضربه الله للنبي صلى الله عليه وسلم إذ خرج وحده، ثم قواه باصحابه كما قوى الحبة بما ينبت منها.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «بورا» کے معنی ہلاک ہونے والوں کے ہیں۔ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ «سيماهم في وجوههم‏» کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ پر سجدوں کی وجہ سے نرمی اور خوشنمائی ہوتی ہے اور منصور نے مجاہد سے نقل کیا «سيما» سے مراد تواضع اور عاجزی ہے۔ «اخرج شطأه‏» اس نے اپنا خوشہ نکالا۔ «فاستغلظ‏» پس وہ موٹا ہو گیا۔ «سوق» درخت کی نلی جس پر درخت کھڑا رہتا ہے، اس کی جڑ۔ «دائرة السوء‏» جیسے کہتے ہیں «رجل السوء‏.‏»۔ «دائرة السوء‏» سے مراد عذاب ہے۔ «تعزروه‏» اس کی مدد کریں۔ «شطأه‏» سے بال کا پٹھا مراد۔ ایک دانہ دس یا آٹھ یا سات بالیں اگاتا ہے اور ایک دوسرے سے سہارا ملتا ہے۔ «فآزره‏» سے یہی مراد ہے، یعنی اس کو زور دیا، اگر ایک ہی بالی ہوتی تو وہ ایک نلی پر کھڑی نہ رہ سکتی۔ یہ ایک مثال اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہے۔ جب آپ کو رسالت ملی آپ بالکل تنہا بےیار و مددگار تھے۔ پھر اللہ پاک نے آپ کے اصحاب سے آپ کو طاقت دی جیسے دانے کو بالیوں سے طاقت ملتی ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4833
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسير في بعض اسفاره وعمر بن الخطاب يسير معه ليلا، فساله عمر بن الخطاب عن شيء، فلم يجبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ساله، فلم يجبه، ثم ساله، فلم يجبه، فقال عمر بن الخطاب: ثكلت ام عمر نزرت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات كل ذلك لا يجيبك، قال عمر: فحركت بعيري، ثم تقدمت امام الناس وخشيت ان ينزل في قرآن، فما نشبت ان سمعت صارخا يصرخ بي، فقلت: لقد خشيت ان يكون نزل في قرآن، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فقال:"لقد انزلت علي الليلة سورة لهي احب إلي مما طلعت عليه الشمس، ثم قرا: إنا فتحنا لك فتحا مبينا سورة الفتح آية 1".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، تیسری مرتبہ بھی انہوں نے سوال کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، عمر کی ماں اسے روئے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تم نے تین مرتبہ سوال میں اصرار کیا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کسی مرتبہ جواب نہیں دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیت نہ نازل ہو۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک پکارنے والے کی آواز میں نے سنی جو مجھے ہی پکار رہا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہو جائے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے اس ساری کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے سورۃ الفتح کی تلاوت فرمائی۔

Share this: