احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ}:
باب: اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”جس پر زبردستی کی جائے اور درآنحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو لیکن جس کا دل کفر ہی کے لیے کھل جائے تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لیے عذاب درد ناک ہو گا۔
وقال: {إلا ان تتقوا منهم تقاة} وهي تقية وقال: {إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي انفسهم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين في الارض} إلى قوله: {عفوا غفورا} وقال: {والمستضعفين من الرجال والنساء والولدان الذين يقولون ربنا اخرجنا من هذه القرية الظالم اهلها واجعل لنا من لدنك وليا واجعل لنا من لدنك نصيرا} فعذر الله المستضعفين الذين لا يمتنعون من ترك ما امر الله به، والمكره لا يكون إلا مستضعفا غير ممتنع من فعل ما امر به. وقال الحسن التقية إلى يوم القيامة. وقال ابن عباس فيمن يكرهه اللصوص فيطلق ليس بشيء، وبه قال ابن عمر وابن الزبير والشعبي والحسن. وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «الاعمال بالنية».
‏‏‏‏ اور سورۃ آل عمران میں فرمایا یعنی یہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم کافروں سے اپنے کو بچانے کے لیے کچھ بچاؤ کر لو۔ ظاہر میں ان کے دوست بن جاؤ یعنی تقیہ کرو۔ اور سورۃ نساء میں فرمایا بیشک ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے وہ بولیں گے کہ ہم اس ملک میں بےبس تھے اور ہمارے لیے اپنے قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کر دے۔ آخر آیت تک۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو اللہ کے احکام نہ بجا لانے سے معذور رکھا اور جس کے ساتھ زبردستی کی جائے وہ بھی کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے وہ اس کے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ تقیہ کا جواز قیامت تک کے لیے ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جس کے ساتھ چوروں نے زبردستی کی ہو (کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے) اور پھر اس نے طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی یہی قول ابن زبیر، شعبی اور حسن کا بھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 6940
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن خالد بن يزيد، عن سعيد بن ابي هلال، عن هلال بن اسامة، ان ابا سلمة بن عبد الرحمن اخبره، عن ابي هريرة"ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يدعو في الصلاة: اللهم انج عياش بن ابي ربيعة، وسلمة بن هشام، والوليد بن الوليد، اللهم انج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطاتك على مضر، وابعث عليهم سنين كسني يوسف".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے خالف بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ہلال بن اسامہ نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن الولید (رضی اللہ عنہم) کو نجات دے۔ اے اللہ بےبس مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ پیس ڈال اور ان پر ایسی قحط سالی بھیج جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آئی تھی۔

Share this: