احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: 3- بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ» :
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ”اگر مجھے پہلے سے وہ معلوم ہوتا جو بعد کو ہوا“۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 7230
حدثنا الحسن بن عمر، حدثنا يزيد، عن حبيب، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال:"كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلبينا بالحج وقدمنا مكة لاربع خلون من ذي الحجة، فامرنا النبي صلى الله عليه وسلم ان نطوف بالبيت وبالصفا والمروة وان نجعلها عمرة ونحل إلا من كان معه هدي، قال: ولم يكن مع احد منا هدي غير النبي صلى الله عليه وسلم، وطلحة، وجاء علي من اليمن معه الهدي، فقال: اهللت بما اهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ننطلق إلى منى، وذكر احدنا يقطر، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لو استقبلت من امري ما استدبرت ما اهديت، ولولا ان معي الهدي لحللت، قال: ولقيه سراقة وهو يرمي جمرة العقبة، فقال: يا رسول الله، النا هذه خاصة، قال: لا، بل لابد، قال: وكانت عائشة قدمت معه مكة وهي حائض، فامرها النبي صلى الله عليه وسلم ان تنسك المناسك كلها غير انها لا تطوف ولا تصلي حتى تطهر، فلما نزلوا البطحاء، قالت عائشة: يا رسول الله: اتنطلقون بحجة وعمرة وانطلق بحجة، قال: ثم امر عبد الرحمن بن ابي بكر الصديق ان ينطلق معها إلى التنعيم، فاعتمرت عمرة في ذي الحجة بعد ايام الحج".
ہم سے حسن بن عمر جرمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع بصریٰ نے، ان سے حبیب بن ابی قریبہ نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے، ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (حجۃ الوداع کے موقع پر) ساتھ تھے، پھر ہم نے حج کے لیے تلبیہ کہا اور 4 ذی الحجہ کو مکہ پہنچے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیت اللہ اور صفا اور مروہ کے طواف کا حکم دیا اور یہ کہ ہم اسے عمرہ بنا لیں اور اس کے بعد حلال ہو جائیں (سوا ان کے جن کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حلال نہیں ہو سکتے) بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا ہم میں سے کسی کے پاس قربانی کا جانور نہ تھا اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تھے اور ان کے ساتھ بھی ہدی تھی اور کہا کہ میں بھی اس کا احرام باندھ کر آیا ہوں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہے، پھر دوسرے لوگ کہنے لگے کہ کیا ہم اپنی عورتوں کے ساتھ صحبت کرنے کے بعد منیٰ جا سکتے ہیں؟ (اس حال میں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکاتے ہوں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی اگر پہلے ہی معلوم ہوتی تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی حلال ہو جاتا۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سراقہ بن مالک نے ملاقات کی۔ اس وقت آپ بڑے شیطان پر رمی کر رہے تھے اور پوچھا یا رسول اللہ! (کیا) یہ ہمارے لیے خاص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی مکہ آئی تھیں لیکن وہ حائضہ تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمام اعمال حج ادا کرنے کا حکم دیا، صرف وہ پاک ہونے سے پہلے طواف نہیں کر سکتی تھیں اور نہ نماز پڑھ سکتی تھیں۔ جب سب لوگ بطحاء میں اترے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ سب لوگ عمرہ و حج دونوں کر کے لوٹیں گے اور میرا صرف حج ہو گا؟ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ عائشہ کو ساتھ لے کر مقام تنعیم جائیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی ایام حج کے بعد ذی الحجہ میں عمرہ کیا۔

Share this: