احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

23: 23- سورة الْمُؤْمِنِينَ:
باب: سورۃ مومنون کی تفسیر۔
من خلاله: من بين اضعاف السحاب، سنا برقه: وهو الضياء، مذعنين: يقال للمستخذي مذعن اشتاتا وشتى وشتات وشت واحد، وقال ابن عباس: سورة انزلناها: بيناها، وقال غيره: سمي القرآن لجماعة السور، وسميت السورة لانها مقطوعة من الاخرى فلما قرن بعضها إلى بعض سمي قرآنا، وقال سعد بن عياض الثمالي: المشكاة الكوة بلسان الحبشة، وقوله تعالى: إن علينا جمعه وقرآنه: تاليف بعضه إلى بعض، فإذا قراناه فاتبع قرآنه: فإذا جمعناه والفناه فاتبع قرآنه اي ما جمع فيه فاعمل بما امرك وانته عما نهاك الله، ويقال: ليس لشعره قرآن اي تاليف وسمي الفرقان لانه يفرق بين الحق والباطل، ويقال للمراة: ما قرات بسلا قط اي لم تجمع في بطنها ولدا ويقال في، فرضناها: انزلنا فيها فرائض مختلفة، ومن قرا، فرضناها: يقول فرضنا عليكم وعلى من بعدكم، وقال مجاهد: او الطفل الذين لم يظهروا: لم يدروا لما بهم من الصغر، وقال الشعبي: اولي الإربة من ليس له ارب، وقال طاوس: هو الاحمق الذي لا حاجة له في النساء، وقال مجاهد: لا يهمه إلا بطنه، ولا يخاف على النساء.
‏‏‏‏ «من خلاله» کا معنی بادل کے پردوں کے بیچ میں سے۔ «سنا برقه» اس کی بجلی کی روشنی۔ «مذعنين»، «مذعن» کی جمع ہے یعنی عاجزی کرنے والا۔ «أشتاتا» اور «شتى» اور «شتات» اور «شت» ‏‏‏‏ سب کے ایک ہی معنی ہیں (یعنی الگ الگ) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «سورة أنزلناها» کا معنی ہم نے اس کو کھول کر بیان کیا کہ سورتوں کے مجموعہ کی وجہ سے قرآن کا نام پڑا اور سورۃ کو سورۃ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ دوسری سورۃ سے علیحدہ ہوتی ہے پھر جب ایک سورۃ دوسری کے قریب کر دی گئی تو مجموعہ کو قرآن کہنے لگے، (تو یہ «قرن» سے نکلا ہے) اور سعد بن عیاض ثمالی نے کہا (اس کو ابن شاہین نے وصل کیا)۔ «مشكاة» کہتے ہیں طاق کو یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ اور یہ جو سورۃ قیامت میں فرمایا ہم پر اس کا جمع کرنا اور «قرآن» کرنا ہے تو «قرآن» سے اس کا جوڑنا اور ایک ٹکڑے سے دوسرا ٹکڑا ملانا مراد ہے۔ پھر فرمایا «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» یعنی جب ہم اس کو جوڑ دیں اور مرتب کر دیں تو اس مجموعہ کی پیروی کر یعنی اس میں جس بات کا حکم ہے اس کو بجا لا اور جس کی اللہ نے ممانعت کی ہے اس سے باز رہ اور عرب لوگ کہتے ہیں اس کے شعروں کا قرآن نہیں ہے۔ یعنی کوئی مجموعہ نہیں ہے اور «قرآن» کو «فرقان» بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حق اور باطل کو جدا کرتا ہے اور عورت کے حق میں کہتے ہیں «ما قرأت بسلا قط» یعنی اس نے اپنے پیٹ میں بچہ کبھی نہیں رکھا اور کہا «فرضناها» تشدید سے تو معنی یہ ہو گا ہم نے اس میں مختلف فرائض نازل کئیے اور جس نے «فرضناها» تخفیف سے پڑھا ہے تو معنی یہ ہو گا ہم نے تم پر اور جو لوگ قیامت تک تمہارے بعد آئیں گے ان پر فرض کیا۔ مجاہد نے کہا «أو الطفل الذين لم يظهروا» سے وہ کم سن بچے مراد ہیں جو کم سنی کی وجہ سے عورتوں کی شرمگاہ یا جماع سے واقف نہیں ہیں اور شعبی نے کہا «غير أولي الإربة» سے وہ مرد مراد ہیں جن کو عورتوں کی احتیاج نہ ہو۔ اور طاؤس نے کہا (اس کو عبدالرزاق نے وصل کیا) وہ احمق مراد ہے جس کو عورتوں کا خیال نہ ہو اور مجاہد نے کہا (اس کو طبری نے وصل کیا) جن کو اپنے پیٹ کی دھن لگی ہو ان سے یہ ڈر نہ ہو کہ عورتوں کو ہاتھ لگائیں گے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4745
حدثنا إسحاق، حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، قال: حدثني الزهري، عن سهل بن سعد، ان عويمرا اتى عاصم بن عدي وكان سيد بني عجلان، فقال: كيف تقولون في رجل وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه، ام كيف يصنع ؟ سل لي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فاتى عاصم النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل، فساله عويمر، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كره المسائل وعابها، قال عويمر: والله لا انتهي حتى اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فجاء عويمر، فقال: يا رسول الله، رجل وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه، ام كيف يصنع ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"قد انزل الله القرآن فيك وفي صاحبتك، فامرهما رسول الله صلى الله عليه وسلم بالملاعنة بما سمى الله في كتابه، فلاعنها"، ثم قال: يا رسول الله، إن حبستها فقد ظلمتها، فطلقها، فكانت سنة لمن كان بعدهما في المتلاعنين، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"انظروا فإن جاءت به اسحم ادعج العينين عظيم الاليتين خدلج الساقين، فلا احسب عويمرا إلا قد صدق عليها، وإن جاءت به احيمر كانه وحرة فلا احسب عويمرا إلا قد كذب عليها"فجاءت به على النعت الذي نعت به رسول الله صلى الله عليه وسلم من تصديق عويمر، فكان بعد ينسب إلى امه.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے، کہا ہم سے امام اوزاعی نے، کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا۔ ان سے سہل بن سعد نے بیان کیا کہ عویمر بن حارث بن زید بن جد بن عجلان عاصم بن عدی کے پاس آئے۔ عاصم بنی عجلان کے سردار تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لوگوں کا ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پا لیتا ہے کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن تم پھر اسے قصاص میں قتل کر دو گے! آخر ایسی صورت میں انسان کیا طریقہ اختیار کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ کے مجھے بتائیے۔ چنانچہ عاصم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! (صورت مذکورہ میں خاوند کیا کرے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل (میں سوال و جواب) کو ناپسند فرمایا۔ جب عویمر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل کو ناپسند فرمایا ہے۔ عویمر نے ان سے کہا کہ واللہ میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے پوچھوں گا۔ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھتا ہے کیا وہ اس کو قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ قصاص میں اس کو قتل کریں گے۔ ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن کی آیت اتاری ہے۔ پھر آپ نے انہیں قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق لعان کا حکم دیا۔ اور عویمر نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کو روکے رکھوں تو میں ظالم ہوں گا۔ اس لیے عویمر نے اسے طلاق دے دی۔ اس کے لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی کا طریقہ جاری ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ دیکھتے رہو اگر اس عورت کے کالا، بہت کالی پتلیوں والا، بھاری سرین اور بھری ہوئی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے الزام غلط نہیں لگایا ہے۔ لیکن اگر سرخ سرخ گر گٹ جیسا پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے غلط الزام لگایا ہے۔ اس کے بعد ان عورت کے جو بچہ پیدا ہوا وہ انہیں صفات کے مطابق تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھیں اور جس سے عویمر کی تصدیق ہوتی تھی۔ چنانچہ اس لڑکے کا نسب اس کی ماں کی طرف رکھا گیا۔

Share this: