احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

6: 6- بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعِلْمِ:
باب: شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا۔
وقوله تعالى: {وقل رب زدني علما} القراءة والعرض على المحدث. وراى الحسن والثوري ومالك القراءة جائزة، واحتج بعضهم في القراءة على العالم بحديث ضمام بن ثعلبة قال للنبي صلى الله عليه وسلم آلله امرك ان نصلي الصلوات قال: «نعم». قال فهذه قراءة على النبي صلى الله عليه وسلم اخبر ضمام قومه بذلك فاجازوه. واحتج مالك بالصك يقرا على القوم فيقولون اشهدنا فلان. ويقرا ذلك قراءة عليهم، ويقرا على المقرئ فيقول القارئ اقراني فلان.
‏‏‏‏ اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تو یہ (گویا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انہوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔
حدثنا محمد بن سلام حدثنا محمد بن الحسن الواسطي عن عوف عن الحسن قال لا باس بالقراءة على العالم. واخبرنا محمد بن يوسف الفربري وحدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال: حدثنا عبيد الله بن موسى عن سفيان قال إذا قرئ على المحدث فلا باس ان يقول حدثني. قال وسمعت ابا عاصم يقول عن مالك وسفيان القراءة على العالم وقراءته سواء.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انہوں نے عوف سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 63
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: حدثنا الليث، عن سعيد هو المقبري، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر، انه سمع انس بن مالك، يقول:"بينما نحن جلوس مع النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد، دخل رجل على جمل فاناخه في المسجد، ثم عقله، ثم قال لهم: ايكم محمد ؟ والنبي صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم، فقلنا: هذا الرجل الابيض المتكئ، فقال له الرجل: يا ابن عبد المطلب، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: قد اجبتك، فقال الرجل للنبي صلى الله عليه وسلم: إني سائلك، فمشدد عليك في المسالة فلا تجد علي في نفسك، فقال: سل عما بدا لك، فقال: اسالك بربك ورب من قبلك، آلله ارسلك إلى الناس كلهم ؟ فقال: اللهم نعم، قال: انشدك بالله، آلله امرك ان نصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة ؟ قال: اللهم نعم، قال: انشدك بالله، آلله امرك ان نصوم هذا الشهر من السنة، قال: اللهم نعم، قال: انشدك بالله، آلله امرك ان تاخذ هذه الصدقة من اغنيائنا فتقسمها على فقرائنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اللهم نعم، فقال الرجل: آمنت بما جئت به، وانا رسول من ورائي من قومي، وانا ضمام بن ثعلبة اخو بني سعد بن بكر"، ورواه موسى، وعلي بن عبد الحميد، عن سليمان، عن ثابت، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے سعید مقبری سے، انہوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا () محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (تحقیق حال کے لیے) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو (لیث کی طرح) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انہوں نے ثابت سے، انہوں نے انس سے، انہوں نے یہی مضمون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

Share this: