احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ الْجِزْيَةِ وَالْمُوَادَعَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ:
باب: جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان۔
وقول الله تعالى: {قاتلوا الذين لا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخر ولا يحرمون ما حرم الله ورسوله ولا يدينون دين الحق من الذين اوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون} يعني اذلاء والمسكنة مصدر المسكين فلان اسكن من فلان احوج منه، ولم يذهب إلى السكون وما جاء في اخذ الجزية من اليهود والنصارى والمجوس والعجم، وقال: ابن عيينة، عن ابن ابي نجيح، قلت لمجاهد: ما شان اهل الشام عليهم اربعة دنانير واهل اليمن عليهم دينار، قال: جعل ذلك من قبل اليسار.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد «قاتلوا الذين لا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخر ولا يحرمون ما حرم الله ورسوله ولا يدينون دين الحق من الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون‏» ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لائے اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو وہ حرام مانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ دین حق کو انہوں نے قبول کیا (بلکہ الٹے وہ لوگ تم ہی کو مٹانے اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے جنگ پر آمادہ ہو گئے)۔ ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی تھی (مثلاً یہود و نصاریٰ) یہاں تک (مدافعت کرو) کہ وہ تمہارے غلبہ کی وجہ سے جزیہ دینا قبول کر لیں اور وہ تمہارے مقابلہ پر دب گئے ہوں۔ ( «صاغرون‏» کے معنی) «أذلاء‏.‏» کے ہیں۔ اور ان احادیث کا ذکر جن میں یہود، نصاریٰ، مجوس اور اہل عجم سے جزیہ لینے کا بیان ہوا ہے۔ ابن عیینہ نے کہا، ان سے ابن ابی نجیح نے کہا کہ میں نے مجاہد سے پوچھا، اس کی کیا وجہ ہے کہ شام کے اہل کتاب پر چار دینار (جزیہ) ہے اور یمن کے اہل کتاب پر صرف ایک دینار! تو انہوں نے کہا کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3156
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: سمعت عمرا، قال: كنت جالسا مع جابر بن زيد وعمرو بن اوس، فحدثهما بجالة سنة سبعين عام حج مصعب بن الزبير باهل البصرة عند درج زمزم، قال:"كنت كاتبا لجزء بن معاوية عم الاحنف فاتانا كتاب عمر بن الخطاب قبل موته بسنة فرقوا بين كل ذي محرم من المجوس ولم يكن عمر اخذ الجزية من المجوس.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عمرو بن دینار سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں جابر بن زید اور عمرو بن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان دونوں بزرگوں سے بجالہ نے بیان کیا کہ 70 ھ میں جس سال مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بصرہ والوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ زمزم کی سیڑھیوں کے پاس انہوں نے بیان کیا تھا کہ میں احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا۔ تو وفات سے ایک سال پہلے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس پارسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہو تو ان کو جدا کر دو اور عمر رضی اللہ عنہ نے پارسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا۔

Share this: