احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

19: 19- بَابُ كَيْفَ يُقْبَضُ الْعَبْدُ وَالْمَتَاعُ:
باب: غلام لونڈی اور سامان پر کیوں کر قبضہ ہوتا ہے۔
وقال ابن عمر: كنت على بكر صعب، فاشتراه النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: هو لك يا عبد الله.
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو اسے خریدا پھر فرمایا عبداللہ یہ اونٹ تو لے لے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2599
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن ابي مليكة، عن المسور بن مخرمة رضي الله عنهما، قال:"قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبية ولم يعط مخرمة منها شيئا، فقال مخرمة: يا بني، انطلق بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلقت معه، فقال: ادخل فادعه لي، قال: فدعوته له، فخرج إليه وعليه قباء منها، فقال: خبانا هذا لك، قال: فنظر إليه، فقال: رضي مخرمة".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ابن ابی ملیکہ سے اور وہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قبائیں تقسیم کیں اور مخرمہ رضی اللہ عنہ کو اس میں سے ایک بھی نہیں دی۔ انہوں نے (مجھ سے) کہا، بیٹے چلو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلیں۔ میں ان کے ساتھ چلا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اندر جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ میں آپ کا منتظر کھڑا ہوا ہوں، چنانچہ میں اندر گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت انہیں قباؤں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی، لو اب یہ تمہاری ہے۔ مسور نے بیان کیا کہ (میرے والد) مخرمہ رضی اللہ عنہ نے قباء کی طرف دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مخرمہ! خوش ہو یا نہیں؟

Share this: