احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

15: 15- بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْعَبِيدُ إِخْوَانُكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ» :
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”غلام تمہارے بھائی ہیں پس ان کو بھی تم اسی میں سے کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو“۔
وقوله تعالى: واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانا وبذي القربى واليتامى والمساكين والجار ذي القربى والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبيل وما ملكت ايمانكم إن الله لا يحب من كان مختالا فخورا سورة النساء آية 36، قال ابو عبد الله: ذي القربى القريب، والجنب الغريب الجار الجنب يعني الصاحب في السفر.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ «واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانا وبذي القربى واليتامى والمساكين والجار ذي القربى والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبيل وما ملكت أيمانكم إن الله لا يحب من كان مختالا فخورا‏» اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ دار پڑوسیوں اور غیر پڑوسیوں اور پاس بیٹھنے والوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ (اچھا سلوک کرو) بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو تکبر کرنے اور اکڑنے والا اور گھمنڈ غرور کرنے والا ہو۔ (آیت میں) «ذي القربى» سے مراد رشتہ دار ہیں، «جنب» سے غیر یعنی اجنبی اور «الجار الجنب» سے مراد سفر کا ساتھی ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2545
حدثنا آدم بن ابي إياس، حدثنا شعبة، حدثنا واصل الاحدب، قال: سمعت المعرور بن سويد، قال: رايت ابا ذر الغفاري رضي الله عنه وعليه حلة وعلى غلامه حلة، فسالناه عن ذلك، فقال: إني ساببت رجلا فشكاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم: اعيرته بامه، ثم قال:"إن إخوانكم خولكم، جعلهم الله تحت ايديكم، فمن كان اخوه تحت يده فليطعمه مما ياكل وليلبسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم ما يغلبهم فاعينوهم".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ہم سے واصل بن حیان نے جو کبڑے تھے، بیان کیا، کہا کہ میں نے معرور بن سوید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے بدن پر بھی ایک جوڑا تھا اور ان کے غلام کے بدن پر بھی اسی قسم کا ایک جوڑا تھا۔ ہم نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ایک دفعہ میری ایک صاحب (یعنی بلال رضی اللہ عنہ سے) سے کچھ گالی گلوچ ہو گئی تھی۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے انہیں ان کی ماں کی طرف سے عار دلائی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرو۔

Share this: