احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

79: 79- بَابُ غَزْوَةُ تَبُوكَ، وَهْيَ غَزْوَةُ الْعُسْرَةِ:
باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4415
حدثني محمد بن العلاء، حدثنا ابو اسامة، عن بريد بن عبد الله بن ابي بردة، عن ابي بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: ارسلني اصحابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم اساله الحملان لهم، إذ هم معه في جيش العسرة وهي غزوة تبوك، فقلت: يا نبي الله، إن اصحابي ارسلوني إليك لتحملهم، فقال:"والله لا احملكم على شيء"، ووافقته وهو غضبان ولا اشعر، ورجعت حزينا من منع النبي صلى الله عليه وسلم، ومن مخافة ان يكون النبي صلى الله عليه وسلم وجد في نفسه علي، فرجعت إلى اصحابي فاخبرتهم الذي قال النبي صلى الله عليه وسلم، فلم البث إلا سويعة إذ سمعت بلالا ينادي: اي عبد الله بن قيس، فاجبته، فقال: اجب رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوك، فلما اتيته، قال:"خذ هذين القرينين، وهذين القرينين لستة ابعرة، ابتاعهن حينئذ من سعد، فانطلق بهن إلى اصحابك، فقل: إن الله، او قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يحملكم على هؤلاء، فاركبوهن"، فانطلقت إليهم بهن، فقلت: إن النبي صلى الله عليه وسلم يحملكم على هؤلاء، ولكني والله لا ادعكم حتى ينطلق معي بعضكم إلى من سمع مقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا تظنوا اني حدثتكم شيئا لم يقله رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا لي: والله إنك عندنا لمصدق، ولنفعلن ما احببت، فانطلق ابو موسى بنفر منهم حتى اتوا الذين سمعوا قول رسول الله صلى الله عليه وسلم منعه إياهم، ثم إعطاءهم بعد، فحدثوهم بمثل ما حدثهم به ابو موسى.
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے سواری کے جانوروں کی درخواست کروں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ جیش عسرت (یعنی غزوہ تبوک) میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کر سکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے میں بہت غمگین واپس ہوا۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفا نہ ہو گئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی خبر دی، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سنی، وہ پکار رہے تھے، اے عبداللہ بن قیس! میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دو جوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت سعد رضی اللہ عنہ سے خریدا تھا اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے، ان پر سوار ہو جاؤ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن اللہ کی قسم! کہ اب تمہیں ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس چلنا پڑے گا، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار فرمانا سنا تھا، کہیں تم یہ خیال نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کر لیں گے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ان میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو دینے سے انکار کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کی تھی۔

Share this: