احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

9: 9- بَابُ الإِشَارَةِ فِي الصَّلاَةِ:
باب: نماز میں اشارہ کرنا۔
قاله كريب , عن ام سلمة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم.
‏‏‏‏ یہ کریب نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1234
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله عنه،"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بلغه ان بني عمرو بن عوف كان بينهم شيء، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلح بينهم في اناس معه، فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت الصلاة، فجاء بلال إلى ابي بكر رضي الله عنه فقال: يا ابا بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حبس وقد حانت الصلاة، فهل لك ان تؤم الناس ؟ قال: نعم، إن شئت، فاقام بلال وتقدم ابو بكر رضي الله عنه فكبر للناس وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف حتى قام في الصف فاخذ الناس في التصفيق، وكان ابو بكر رضي الله عنه لا يلتفت في صلاته، فلما اكثر الناس التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يامره ان يصلي فرفع ابو بكر رضي الله عنه يديه فحمد الله، ورجع القهقرى وراءه حتى قام في الصف، فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى للناس، فلما فرغ اقبل على الناس , فقال: يا ايها الناس ما لكم حين نابكم شيء في الصلاة اخذتم في التصفيق إنما التصفيق للنساء، من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله فإنه لا يسمعه احد حين يقول سبحان الله، إلا التفت يا ابا بكر، ما منعك ان تصلي للناس حين اشرت إليك ؟ , فقال ابو بكر رضي الله عنه: ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں باہم کوئی جھگڑا پیدا ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ملاپ کرانے کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مشغول ہی تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ اس لیے بلال رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک تشریف نہیں لائے۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کی امامت کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر تکبیر (تحریمہ) کہی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگاہ کرنے کے لیے) ہاتھ پر ہاتھ بجانے شروع کر دیئے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف دھیان نہیں دیا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے بہت تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں نماز پڑھاتے رہنے کے لیے کہا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور الٹے پاؤں پیچھے کی طرف آ کر صف میں کھڑے ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لوگو! نماز میں ایک امر پیش آیا تو تم لوگ ہاتھ پر ہاتھ کیوں مارنے لگے تھے، یہ دستک دینا تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔ جس کو نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو «سبحان الله» کہے کیونکہ جب بھی کوئی «سبحان الله» سنے گا وہ ادھر خیال کرے گا اور اے ابوبکر! میرے اشارے کے باوجود تم لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بھلا ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نماز پڑھائے۔

Share this: