احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

9: 9- بَابُ مَنْ يُنْكَبُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ:
باب: جس کو اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچے (یعنی اس کے کسی عضو کو صدمہ ہو)۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2801
حدثنا حفص بن عمر الحوضي، حدثنا همام، عن إسحاق، عن انس رضي الله عنه، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم اقواما من بني سليم إلى بني عامر في سبعين، فلما قدموا، قال: لهم خالي اتقدمكم فإن امنوني حتى ابلغهم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإلا كنتم مني قريبا فتقدم فامنوه فبينما يحدثهم عن النبي صلى الله عليه وسلم إذ اومئوا إلى رجل منهم فطعنه فانفذه، فقال: الله اكبر فزت ورب الكعبة ثم مالوا على بقية اصحابه، فقتلوهم إلا رجلا اعرج صعد الجبل، قال همام: فاراه آخر معه، فاخبر جبريل عليه السلام النبي صلى الله عليه وسلم انهم قد لقوا ربهم فرضي عنهم وارضاهم، فكنا نقرا ان بلغوا قومنا ان قد لقينا ربنا فرضي عنا وارضانا، ثم نسخ بعد فدعا عليهم اربعين صباحا على رعل وذكوان، وبني لحيان، وبني عصية الذين عصوا الله ورسوله صلى الله عليه وسلم.
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام نے ان سے اسحاق نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے (70) ستر آدمی (جو قاری تھے) بنو عامر کے یہاں بھیجے۔ جب یہ سب حضرات (بئرمعونہ پر) پہنچے تو میرے ماموں حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ نے کہا میں (بنو سلیم کے یہاں) آگے جاتا ہوں اگر مجھے انہوں نے اس بات کا امن دے دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ان تک پہنچاؤں تو۔ بہتر ورنہ تم لوگ میرے قریب تو ہو ہی۔ چنانچہ وہ ان کے یہاں گئے اور انہوں نے امن بھی دے دیا۔ ابھی وہ قبیلہ کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنا ہی رہے تھے کہ قبیلہ والوں نے اپنے ایک آدمی (عامر بن طفیل) کو اشارہ کیا اور اس نے آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر برچھا پیوست کر دیا جو آرپار ہو گیا۔ اس وقت ان کی زبان سے نکلا اللہ اکبر میں کامیاب ہو گیا کعبہ کے رب کی قسم! اس کے بعد قبیلہ والے حرام رضی اللہ عنہ کے دوسرے ساتھیوں کی طرف (جو ستر کی تعداد میں تھے) بڑھے اور سب کو قتل کر دیا۔ البتہ ایک صاحب جو لنگڑے تھے ‘ پہاڑ پر چڑھ گئے۔ ہمام (راوی حدیث) نے بیان کیا میں سمجھتا ہوں کہ ایک اور ان کے ساتھ (پہاڑ پر چڑھے تھے) (عمر بن امیہ ضمری) اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ آپ کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے جا ملے ہیں پس اللہ خود بھی ان سے خوش ہے اور انہیں بھی خوش کر دیا ہے۔ اس کے بعد ہم (قرآن کی دوسری آیتوں کے ساتھ یہ آیت بھی) پڑھتے تھے (ترجمہ) ہماری قوم کے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے آ ملے ہیں ‘ پس ہمارا رب خود بھی خوش ہے اور ہمیں بھی خوش کر دیا ہے۔ اس کے بعد یہ آیت منسوخ ہو گئی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس دن تک صبح کی نماز میں قبیلہ رعل ‘ ذکوان ‘ بنی لحیان اور بنی عصیہ کے لیے بددعا کی تھی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی۔

Share this: