احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

82: 82- بَابُ مَوْعِظَةِ الْمُحَدِّثِ عِنْدَ الْقَبْرِ، وَقُعُودِ أَصْحَابِهِ حَوْلَهُ:
باب: قبر کے پاس عالم کا بیٹھنا اور لوگوں کو نصیحت کرنا اور لوگوں کا اس کے اردگرد بیٹھنا۔
الاجداث: القبور , بعثرت: اثيرت , بعثرت حوضي: اي جعلت اسفله اعلاه الإيفاض الإسراع , وقرا الاعمش إلى نصب إلى شيء منصوب يستبقون إليه والنصب واحد , والنصب مصدر يوم الخروج من القبور ينسلون يخرجون.
‏‏‏‏ سورۃ القمر میں آیت «يخرجون من الأجداث‏» میں «أجداث» سے قبریں مراد ہیں۔ اور سورۃ انفطار میں «بعثرت‏» کے معنے اٹھائے جانے کے ہیں۔ عربوں کے قول میں «بعثرت حوضي» کا مطلب یہ کہ حوض کا نچلا حصہ اوپر کر دیا۔ «إيفاض» کے معنے جلدی کرنا۔ اور اعمش کی قرآت میں «إلى نصب‏» ( «بفتح نون») ہے یعنی ایک «شىء منصوب» کی طرف تیزی سے دوڑے جا رہے ہیں تاکہ اس سے آگے بڑھ جائیں۔ «نصب‏» ( «بضم نون») واحد ہے اور «نصيب» ( «بفتح نون») مصدر ہے اور سورۃ ق میں «يوم الخروج» سے مراد مردوں کا قبروں سے نکلنا ہے۔ اور سورۃ انبیاء میں «ينسلون» «يخرجون» کے معنے میں ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1362
حدثنا عثمان , قال: حدثني جرير، عن منصور، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن، عن علي رضي الله عنه , قال:"كنا في جنازة في بقيع الغرقد، فاتانا النبي صلى الله عليه وسلم فقعد , وقعدنا حوله ومعه مخصرة فنكس فجعل ينكت بمخصرته , ثم قال: ما منكم من احد ما من نفس منفوسة إلا كتب مكانها من الجنة والنار، وإلا قد كتب شقية او سعيدة، فقال رجل: يا رسول الله افلا نتكل على كتابنا وندع العمل، فمن كان منا من اهل السعادة فسيصير إلى عمل اهل السعادة، واما من كان منا من اهل الشقاوة فسيصير إلى عمل اهل الشقاوة، قال: اما اهل السعادة فييسرون لعمل السعادة، واما اهل الشقاوة فييسرون لعمل الشقاوة، ثم قرا: فاما من اعطى واتقى سورة الليل آية 5".
ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے منصور بن معتمر نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن عبیدہ نے ‘ ان سے ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن حبیب نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کریدنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں یا کوئی جان ایسی نہیں جس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ دونوں جگہ نہ لکھا گیا ہو اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہو گی یا بدبخت۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کر لیں اور عمل چھوڑ دیں کیونکہ جس کا نام نیک دفتر میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع ہو گا اور جس کا نام بدبختوں میں لکھا ہے وہ ضرور بدی کی طرف جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جن کا نام نیک بختوں میں ہے ان کو اچھے کام کرنے میں ہی آسانی معلوم ہوتی ہے اور بدبختوں کو برے کاموں میں آسانی نظر آتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «فأما من أعطى واتقى‏» الآية‏۔

Share this: