احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

3: 3- بَابٌ في النُّجُومِ:
باب: ستاروں کا بیان۔
قال مجاهد: كحسبان الرحى، وقال غيره: بحساب ومنازل لا يعدوانها حسبان جماعة حساب مثل شهاب وشهبان ضحاها سورة النازعات آية 29: ضوءها ان تدرك القمر سورة يس آية 40: لا يستر ضوء احدهما ضوء الآخر، ولا ينبغي لهما ذلك سابق النهار سورة يس آية 40: يتطالبان حثيثين نسلخ نخرج احدهما من الآخر ونجري كل واحد منهما واهية وهيها تشققها ارجائها ما لم ينشق منها فهم على حافتيها كقولك على ارجاء البئر واغطش سورة النازعات آية 29 و جن سورة الانعام آية 76 اظلم، وقال الحسن كورت سورة التكوير آية 1: تكور حتى يذهب ضوءها والليل وما وسق سورة الانشقاق آية 17: جمع من دابة اتسق سورة الانشقاق آية 18: استوى بروجا سورة الحجر آية 16: منازل الشمس والقمر الحرور بالنهار مع الشمس وقال ابن عباس ورؤبة الحرور بالليل والسموم بالنهار يقال يولج يكور وليجة سورة التوبة آية 16 كل شيء ادخلته في شيء.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا یعنی چکی کی طرح گھومتے ہیں اور دوسرے لوگوں نے یوں کہا یعنی حساب سے مقررہ منزلوں میں پھرتے ہیں، زیادہ نہیں بڑھ سکتے۔ لفظ «حسبان» «حساب» کی جمع ہے۔ جیسے لفظ «شهاب» کی جمع «شهبان‏.‏» ہے اور سورۃ والشمس میں جو لفظ «ضحاها‏» آیا ہے۔ «ضحى» روشنی کو کہتے ہیں اور سورۃ یٰسٓ میں جو آیا ہے کہ سورج چاند کو نہیں پا سکا، یعنی ایک کی روشنی دوسرے کو ماند نہیں کر سکتی نہ ان کو یہ بات سزاوار ہے اور اسی سورۃ میں جو الفاظ «ولا الليل سابق النهار‏» ہیں ان کا مطلب یہ کہ دن اور رات ہر ایک دوسرے کے طالب ہو کر لپکے جا رہے ہیں اور اسی سورۃ میں لفظ «انسلخ» کا معنی یہ ہے کہ دن کو رات سے اور رات کو دن سے ہم نکال لیتے ہیں اور سورۃ الحاقہ میں جو «واهية» کا لفظ ہے۔ «وهي» کے منی پھٹ جانا اور اسی سورۃ میں جو یہ ہے «أرجائها» یعنی فرشتے آسمانوں کے کناروں پر ہوں گے جب تک وہ پھٹے گا نہیں۔ جیسے کہتے ہیں وہ کنویں کے کنارے پر اور سورۃ والنازعات میں جو لفظ «أغطش‏» اور سورۃ الانعام میں لفظ «جن‏» ہے ان کے معنی اندھیری کے ہیں۔ یعنی اندھیاری کی اندھیاری ہوئی اور امام حسن بصریٰ نے کہا کہ سورۃ اذالشمس میں «كورت‏» کا جو لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے جب لپیٹ کر تاریک کر دیا جائے گا اور سورۃ انشقت میں جو «وما وسق‏» کا لفظ ہے اس کے معنی جو اکٹھا کرے۔ اسی سورۃ میں «اتسق‏» کا معنی سیدھا ہوا، اور سورۃ الفرقان میں «بروجا‏» کا لفظ «بروج‏» سورج اور چاند کی منزلوں کو کہتے ہیں اور سورۃ فاطر میں جو «حرور» کا لفظ ہے اس کے معنی دھوپ کی گرمی کے ہیں۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، «حرور» رات کی گرمی اور «سموم» دن کی گرمی۔ اور سورۃ فاطر میں جو «يولج» کا لفظ ہے اس کے معنی لپیٹتا ہے اندر داخل کرتا ہے اور سورۃ التوبہ میں جو «وليجة‏» کا لفظ ہے اس کے معنی اندر گھسا ہوا یعنی راز دار دوست۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3199
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، عن ابي ذر رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي ذر حين غربت الشمس تدري:"اين تذهب، قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنها تذهب حتى تسجد تحت العرش، فتستاذن فيؤذن لها ويوشك ان تسجد فلا يقبل منها وتستاذن فلا يؤذن لها، يقال لها: ارجعي من حيث جئت فتطلع من مغربها فذلك قوله تعالى والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم سورة يس آية 38.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ یزید بن شریک نے اور ان سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے۔ پھر (دوبارہ آنے) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا۔ چنانچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» (یٰسٓ: 38) میں اسی طرف اشارہ ہے۔

Share this: