احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

--: (بَابٌ:)
باب: (وحی کی علامات، وحی کا محفوظ کرنا)۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 5
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا ابو عوانة، قال: حدثنا موسى بن ابي عائشة، قال: حدثنا سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قوله تعالى:"لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعالج من التنزيل شدة، وكان مما يحرك شفتيه، فقال ابن عباس: فانا احركهما لكم كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحركهما، وقال سعيد: انا احركهما كما رايت ابن عباس يحركهما، فحرك شفتيه، فانزل الله تعالى: لا تحرك به لسانك لتعجل به { 16 } إن علينا جمعه وقرءانه { 17 } سورة القيامة آية 16-17، قال: جمعه له في صدرك وتقراه، فإذا قراناه فاتبع قرءانه سورة القيامة آية 18، قال: فاستمع له وانصت ثم إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19، ثم إن علينا ان تقراه، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك إذا اتاه جبريل استمع، فإذا انطلق جبريل قراه النبي صلى الله عليه وسلم كما قراه".
موسیٰ بن اسماعیل نے ہم سے حدیث بیان کی، ان کو ابوعوانہ نے خبر دی، ان سے موسیٰ ابن ابی عائشہ نے بیان کی، ان سے سعید بن جبیر نے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کلام الٰہی «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا) پھر یہ آیت اتری کہ اے محمد! قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلاؤ۔ اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یعنی قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں (اس کا مطلب یہ ہے) کہ آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہو۔ اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر یقیناً یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ اس کو پڑھو (یعنی اس کو محفوظ کر سکو) چنانچہ اس کے بعد جب آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام (وحی لے کر) آتے تو آپ (توجہ سے) سنتے۔ جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (وحی) کو اسی طرح پڑھتے جس طرح جبرائیل علیہ السلام نے اسے پڑھا تھا۔

Share this: