احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

170: 170- بَابُ هَلْ يَسْتَأْسِرُ الرَّجُلُ وَمَنْ لَمْ يَسْتَأْسِرْ، وَمَنْ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ:
باب: اپنے تئیں قید کرا دینا اور جو شخص قید نہ کرائے اس کا حکم اور قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3045
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عمرو بن ابي سفيان بن اسيد بن جارية الثقفي وهو حليف لبني زهرة وكان من اصحاب ابي هريرة، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قال:"بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة رهط سرية عينا، وامر عليهم عاصم بن ثابت الانصاري جد عاصم بن عمر بن الخطاب فانطلقوا حتى إذا كانوا بالهداة وهو بين عسفان ومكة ذكروا لحي من هذيل، يقال لهم: بنو لحيان فنفروا لهم قريبا من مائتي رجل كلهم رام فاقتصوا آثارهم حتى وجدوا ماكلهم تمرا تزودوه من المدينة، فقالوا: هذا تمر يثرب فاقتصوا آثارهم فلما رآهم عاصم واصحابه لجئوا إلى فدفد واحاط بهم القوم، فقالوا لهم: انزلوا واعطونا بايديكم ولكم العهد والميثاق ولا نقتل منكم احدا، قال عاصم بن ثابت امير السرية: اما انا فوالله لا انزل اليوم في ذمة كافر، اللهم اخبر عنا نبيك فرموهم بالنبل فقتلوا عاصما في سبعة فنزل إليهم ثلاثة رهط بالعهد والميثاق منهم خبيب الانصاري وابن دثنة ورجل آخر، فلما استمكنوا منهم اطلقوا اوتار قسيهم فاوثقوهم، فقال: الرجل الثالث هذا اول الغدر والله لا اصحبكم إن لي في هؤلاء لاسوة يريد القتلى فجرروه وعالجوه على ان يصحبهم فابى فقتلوه، فانطلقوا بخبيب وابن دثنة حتى باعوهما بمكة بعد وقعة بدر فابتاع خبيبا بنو الحارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف، وكان خبيب هو قتل الحارث بن عامر يوم بدر فلبث خبيب عندهم اسيرا. فاخبرني عبيد الله بن عياض ان بنت الحارث اخبرته انهم حين اجتمعوا استعار منها موسى يستحد بها فاعارته، فاخذ ابنا لي وانا غافلة حين اتاه، قالت: فوجدته مجلسه على فخذه والموسى بيده ففزعت فزعة عرفها خبيب في وجهي، فقال: تخشين ان اقتله ما كنت لافعل ذلك والله ما رايت اسيرا قط خيرا من خبيب والله لقد وجدته يوما ياكل من قطف عنب في يده، وإنه لموثق في الحديد وما بمكة من ثمر وكانت تقول: إنه لرزق من الله رزقه خبيبا فلما خرجوا من الحرم ليقتلوه في الحل، قال لهم: خبيب ذروني اركع ركعتين فتركوه فركع ركعتين، ثم قال: لولا ان تظنوا ان ما بي جزع لطولتها اللهم احصهم عددا ولست ابالي حين اقتل مسلما على اي شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشا يبارك على اوصال شلو ممزع فقتله ابن الحارث فكان خبيب هو سن الركعتين لكل امرئ مسلم قتل صبرا فاستجاب الله لعاصم بن ثابت يوم اصيب، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم اصحابه خبرهم وما اصيبوا وبعث ناس من كفار قريش إلى عاصم حين حدثوا انه قتل ليؤتوا بشيء منه يعرف، وكان قد قتل رجلا من عظمائهم يوم بدر فبعث على عاصم مثل الظلة من الدبر، فحمته من رسولهم فلم يقدروا على ان يقطع من لحمه شيئا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ اس سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی ‘ وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دوست ‘ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی ‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا اور جماعت روانہ ہو گئی۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کو کسی نے خبر دے دی اور اس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی ‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں ‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ (گٹھلیاں) تو یثرب (مدینہ) کی (کھجوروں کی) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آخر عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی ‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ ‘ تم سے ہمارا عہد و پیمان ہے۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئیے اور عاصم رضی اللہ عنہ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کر ڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے، یہ خبیب انصاری رضی اللہ عنہ ابن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک تیسرے صحابی (عبداللہ بن طارق بلوی رضی اللہ عنہ) تھے۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کر ان کو ان سے باندھ لیا ‘ عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا ‘ بلکہ میں تو انہیں کا اسوہ اختیار کروں گا ‘ ان کی مراد شہداء سے تھی۔ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کر دیا۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا، خبیب رضی اللہ عنہ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی بن کر رہے، (زہری نے بیان کیا) کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی اور انہیں حارث کی بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے خبر دی کہ جب (ان کو قتل کرنے کے لیے) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لیے استرا مانگا۔ انہوں نے استرا دے دیا، (زینب نے بیان کیا) پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا ‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی ‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا ‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہو گا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا ‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ کی قسم! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجی تھی۔ پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے ‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ پھر خبیب رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں (قتل سے) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اور لمبا کرتا۔ اے اللہ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے، (پھر یہ اشعار پڑھے) جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں ‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو۔ آخر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے ان کو شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ سے ہی ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ (مہم کے امیر) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دیدے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دو چار ہوئی تھی۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لیے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔

Share this: