احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ: {وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً}:
باب: آیت کی تفسیر ”اور انسان سب چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“۔
وقال مجاهد: تقرضهم: تتركهم، وكان له ثمر: ذهب وفضة، وقال غيره: جماعة الثمر، باخع، مهلك، اسفا: ندما الكهف الفتح في الجبل، والرقيم الكتاب مرقوم مكتوب من الرقم، ربطنا على قلوبهم: الهمناهم صبرا، لولا ان ربطنا على قلبها شططا: إفراطا الوصيد الفناء جمعه، وصائد ووصد، ويقال الوصيد الباب، مؤصدة: مطبقة آصد الباب، واوصد، بعثناهم: احييناهم، ازكى: اكثر، ويقال: احل، ويقال: اكثر ريعا، قال ابن عباس: اكلها ولم تظلم: لم تنقص، وقال سعيد، عن ابن عباس: الرقيم اللوح من رصاص كتب عاملهم اسماءهم، ثم طرحه في خزانته، فضرب الله على آذانهم فناموا، وقال غيره: والت تئل تنجو، وقال مجاهد: موئلا: محرزا، لا يستطيعون سمعا: لا يعقلون.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «تقرضهم‏» کا معنی ان کو چھوڑ دیتا تھا، کترا جاتا تھا۔ «وكان له ثمر‏» میں «ثمر‏» سے مراد سونا روپیہ ہے۔ دوسروں نے کہا «ثمر‏» یعنی پھل کی جمع ہے۔ «باخع‏» کا معنی ہلاک کرنے والا۔ «أسفا‏» ندامت اور رنج سے۔ «كهف» پہاڑ کا کھوہ یا غار۔ «الرقيم» کے معنی لکھا ہوا بمعنی «مرقوم» یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے «رقم» سے۔ «ربطنا على قلوبهم‏» ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا جیسے سورۃ قصص میں ہے۔ «لولا أن ربطنا على قلبها‏» (وہاں بھی صبر کے معنی ہیں)۔ «شططا‏» حد سے بڑھ جانا۔ «مرفقا» جس چیز پر تکیہ لگائے۔ «تزاور» زور سے نکلا ہے یعنی جھک جاتا تھا اسی سے «ازور» ہے بہت جھکنے والا۔ «فجوة» کشادہ جگہ اس کی جمع «فجوات» اور «فجاء» آتی ہے جیسے «زكوة» کی جمع «زكاء» ہے۔ اور «وصيدا» آنگن، صحن اس کی جمع «وصائد» اور «وصد» ہے۔ بعضوں نے کہا «وصيد» کے معنی دروازہ۔ «مؤصدة‏» کے معنی بند کی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں «آصد الباب» یعنی اس نے دروازہ بند کر دیا۔ «بعثناهم‏» ہم نے ان کو زندہ کیا کھڑا کر دیا۔ «أزكى‏ طعاما» اور «أوصد الباب» یعنی جو بستی کی اکثر خوراک ہے یا جو کھانا خوب حلال کا ہو، خوب پک کر بڑھ گیا ہو۔ «أكلها» اس کا میوہ، یہ ابن عباس نے کہا ہے۔ «ولم تظلم‏» میوہ کم نہیں ہوا۔ اور سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا۔ «رقيم» وہ ایک تختی ہے سیسے کی اس پر اس وقت کے حاکم نے اصحاب کہف کے نام لکھ کر اپنے خزانے میں ڈال دی تھی۔ «فضرب الله على آذانهم» اللہ نے ان کے کان بند کر دیئے۔ (ان پر پردہ ڈال دیا) وہ سو گئے۔ ابن عباس کے سوا اور لوگوں نے کہا۔ «موئلا‏» وال «يئل» سے نکلا ہے۔ یعنی نجات پائے اور مجاہد نے کہا «موئل» محفوظ مقام۔ «لا يستطيعون سمعا‏» کے معنی وہ عقل نہیں رکھتے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4724
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني علي بن حسين، ان حسين بن علي اخبره، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم طرقه وفاطمة، قال:"الا تصليان ؟". رجما بالغيب: لم يستبن، فرطا: يقال ندما، سرادقها: مثل السرادق والحجرة التي تطيف بالفساطيط يحاوره من المحاورة، لكنا هو الله ربي: اي لكن انا هو الله ربي، ثم حذف الالف وادغم إحدى النونين في الاخرى، وفجرنا خلالهما نهرا، يقول: بينهما، زلقا: لا يثبت فيه قدم، هنالك الولاية: مصدر الولي، عقبا: عاقبة، وعقبى وعقبة واحد وهي الآخرة قبلا، وقبلا وقبلا استئنافا، ليدحضوا: ليزيلوا الدحض الزلق".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھے علی بن حسین نے خبر دی، انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں علی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور فرمایا۔ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے (آخر حدیث تک)۔ «رجما بالغيب‏» یعنی سنی سنائی اور ان کو خود کچھ علم نہیں۔ «فرطا‏» ندامت، شرمندگی۔ «سرادقها‏» یعنی قناتوں کی طرح سب طرف سے ان کو آگ گھیر لے گی جیسے کوٹھری کو سب طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ «يحاوره‏»، «محاورة» سے نکلا ہے یعنی گفتگو کرنا، تکرار کرنا۔ «لكنا هو الله ربي‏» اصل میں «لكن أنا هو الله ربي» تھا «أنا» کا ہمزہ حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا «لكنا» ہو گیا۔ «خلالهما نهرا» یعنی «بينهما» ان کے بیچ میں۔ «زلقا» چکنا، صاف جس پر پاؤں پھسلے (جمے نہیں)۔ «هنالك الولاية‏»، «ولايت‏»، «ولي» کا مصدر ہے۔ «عقبا‏»، «عاقبت» اسی طرح «عقبى» اور «عقبة» سب کا ایک ہی معنی ہے یعنی آخرت۔ «قبلا» اور «قبلا» اور «قبلا» (تینوں طرح پڑھا ہے) یعنی سامنے آنا۔ «ليدحضوا‏»، «دحض» سے نکلا ہے یعنی پھسلانا (مطلب یہ ہے کہ حق بات کو ناحق کریں)۔

Share this: