احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ التَّسْمِيَةِ عَلَى الصَّيْدِ:
باب: شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔
وقوله تعالى: {يا ايها الذين آمنوا ليبلونكم الله بشيء من الصيد} إلى قوله: {عذاب اليم}. وقوله جل ذكره: {احلت لكم بهيمة الانعام إلا ما يتلى عليكم} إلى قوله: {فلا تخشوهم واخشون} وقال ابن عباس: العقود العهود، ما احل وحرم {إلا ما يتلى عليكم} الخنزير. {يجرمنكم} يحملنكم {شنآن} عداوة {المنخنقة} تخنق فتموت {الموقوذة} تضرب بالخشب يوقذها فتموت {والمتردية} تتردى من الجبل {والنطيحة} تنطح الشاة، فما ادركته يتحرك بذنبه او بعينه فاذبح وكل.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان پس تم اعتراض کرنے والے کافروں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ المائدہ میں فرمان کہ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ تمہیں کچھ شکار دکھلا کر آزمائے گا جس تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے۔ الآیۃ اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ المائدہ میں فرمان کہ تمہارے لیے چوپائے مویشی حلال کئے گئے سوا ان کے جن کا ذکر تم سے کیا جاتا ہے (مردار اور سور وغیرہ) اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ پس تم (ان کافروں) سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «العقود» سے مراد حلال و حرام سے متعلق عہد و پیمان۔ «إلا ما يتلى عليكم‏» سے سور، مردار، خون وغیرہ مراد ہے۔ «يجرمنكم‏» باعث بنے۔ «شنآن‏» کے معنی عداوت دشمنی۔ «المنخنقة‏» جس جانور کا گلا گھونٹ کر مار دیا گیا ہو اور اس سے وہ مر گیا ہو۔ «الموقوذة‏» جسے لکڑی یا پتھر سے مارا جائے اور اس سے وہ مر جائے۔ «المتردية‏» جو پہاڑ سے پھسل کر گر پڑے اور مر جائے۔ «النطيحة‏» جس کو کسی جانور نے سینگ سے مار دیا ہو۔ پس اگر تم اسے دم ہلاتے ہوئے یا آنکھ گھماتے ہوئے پاؤ تو ذبح کر کے کھا لو کیونکہ یہ اس کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 5475
حدثنا ابو نعيم، حدثنا زكرياء، عن عامر، عن عدي بن حاتم رضي الله عنه، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن صيد المعراض ؟ قال:"ما اصاب بحده فكله، وما اصاب بعرضه فهو وقيذ"، وسالته عن صيد الكلب ؟ فقال:"ما امسك عليك فكل، فإن اخذ الكلب ذكاة، وإن وجدت مع كلبك او كلابك كلبا غيره فخشيت ان يكون اخذه معه وقد قتله، فلا تاكل، فإنما ذكرت اسم الله على كلبك ولم تذكره على غيره".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پر کے تیر یا لکڑی یا گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس کی نوک شکار کو لگ جائے تو کھا لو لیکن اگر اس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے تو وہ نہ کھاؤ کیونکہ وہ «موقوذة‏» ہے اور میں نے آپ سے کتے کے شکار کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جسے وہ تمہارے لیے رکھے (یعنی وہ خود نہ کھائے) اسے کھا لو کیونکہ کتے کا شکار کو پکڑ لینا یہ بھی ذبح کرنا ہے اور اگر تم اپنے کتے یا کتوں کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ اور تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے نے شکار اس دوسرے کے ساتھ پکڑا ہو گا اور کتا شکار کو مار چکا ہو تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام (بسم اللہ پڑھ کر) اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا۔

Share this: