احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

38: 38- بَابُ زَكَاةِ الْغَنَمِ:
باب: بکریوں کی زکوٰۃ کا بیان۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1454
حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى الانصاري , قال: حدثني ابي , قال: حدثني ثمامة بن عبد الله بن انس، ان انسا حدثه،"ان ابا بكر رضي الله عنه كتب له هذا الكتاب لما وجهه إلى البحرين،"بسم الله الرحمن الرحيم هذه فريضة الصدقة التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين والتي امر الله بها رسوله، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعط في اربع وعشرين من الإبل فما دونها من الغنم من كل خمس شاة إذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين ففيها بنت مخاض انثى فإذا بلغت ستا وثلاثين إلى خمس واربعين ففيها بنت لبون انثى، فإذا بلغت ستا واربعين إلى ستين ففيها حقة طروقة الجمل، فإذا بلغت واحدة وستين إلى خمس وسبعين ففيها جذعة، فإذا بلغت يعني ستا وسبعين إلى تسعين ففيها بنتا لبون، فإذا بلغت إحدى وتسعين إلى عشرين ومائة ففيها حقتان طروقتا الجمل، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل اربعين بنت لبون وفي كل خمسين حقة، ومن لم يكن معه إلا اربع من الإبل فليس فيها صدقة إلا ان يشاء ربها، فإذا بلغت خمسا من الإبل ففيها شاة وفي صدقة الغنم في سائمتها إذا كانت اربعين إلى عشرين ومائة شاة، فإذا زادت على عشرين ومائة إلى مائتين شاتان، فإذا زادت على مائتين إلى ثلاث مائة ففيها ثلاث شياه، فإذا زادت على ثلاث مائة ففي كل مائة شاة، فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة من اربعين شاة واحدة فليس فيها صدقة إلا ان يشاء ربها وفي الرقة ربع العشر فإن لم تكن إلا تسعين ومائة فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ انصاری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں بحرین (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا۔ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا۔ اس لیے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوٰۃ مانگے تو مسلمانوں کو اسے دے دینا چاہیے اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری دینی ہو گی۔ (پانچ سے کم میں کچھ نہیں) لیکن جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہو گی جو مادہ ہوتی ہے۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے (تو چھتیس سے) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہو گی۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے (تو چھیالیس سے) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہو گی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے (تو اکسٹھ سے) پچھتر تک چار برس کی مادہ واجب ہو گی۔ جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے (تو چھہتر سے) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو (اکیانوے سے) ایک سو بیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو جفتی کے قابل ہوں۔ پھر ایک سو بیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی اونٹنی واجب ہو گی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوٰۃ جو (سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں) چر کر گزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو تو (چالیس سے) ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہو گی اور جب ایک سو بیس سے تعداد بڑھ جائے (تو ایک سو بیس سے) سے دو سو تک دو بکریاں واجب ہوں گی۔ اگر دو سو سے بھی تعداد بڑھ جائے تو (تو دو سو سے) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سو پر ایک بکری واجب ہو گی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اور چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ واجب ہو گی لیکن اگر کسی کے پاس ایک سو نوے (درہم) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی مگر خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہیے تو اور بات ہے۔

Share this: