احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

19: 19- كهيعص:
باب: سورۃ کھٰیٰعص کی تفسیر۔
قال ابن عباس: اسمع بهم وابصر الله يقوله وهم اليوم لا يسمعون ولا يبصرون، في ضلال مبين، يعني قوله: اسمع بهم وابصر: الكفار يومئذ اسمع شيء وابصره، لارجمنك: لاشتمنك، ورئيا: منظرا، وقال ابن عيينة: تؤزهم ازا: تزعجهم إلى المعاصي إزعاجا، وقال مجاهد: إدا: عوجا، قال ابن عباس: وردا: عطاشا، اثاثا: مالا، إدا: قولا عظيما، ركزا: صوتا، غيا: خسرانا، بكيا: جماعة باك، صليا: صلي يصلى، نديا: والنادي مجلسا.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أبصر بهم وأسمع» یہ اللہ فرماتا ہے آج کے دن (یعنی دنیا میں) نہ تو کافر سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں بلکہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ «أسمع بهم وأبصر‏» یعنی کافر قیامت کے دن خوب سنتے اور خوب دیکھتے ہوں گے (مگر اس وقت کا سننا دیکھنا کچھ فائدہ نہ دے گا)۔ «لأرجمنك‏» میں تجھ پر گالیوں کا پتھراؤ کروں گا۔ لفظ «رئيا‏» کے معنی منظر، دکھاوا اور ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا مریم علیہا السلام جانتی تھیں کہ جو پرہیزگار ہوتا ہے وہ صاحب عقل ہوتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں اگر تو پرہیزگار ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہا «تؤزهم أزا‏» کا معنی یہ ہے کہ شیطان کافروں کو گناہوں کی طرف گھسیٹتے ہیں۔ مجاہد نے کہا «إدا‏» کے معنی کج اور ٹیڑھی، غلط بات (یا کج اور ٹیڑھی باتیں)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وردا‏» کے معنی پیاسے کے ہیں اور «أثاثا‏» کے معنی مال اسباب۔ «إدا‏» بڑی بات۔ «ركزا‏» ہلکی، پست آواز۔ «غيا‏» نقصان، ٹوٹا۔ «بكيا‏»، «باكى» کی جمع ہے یعنی رونے والے۔ «صليا‏» مصدر ہے۔ «صلي»، «يصلى» ‏‏‏‏ باب «سمع»، «يسمع» سے یعنی جلنا۔ «ندي‏» اور «لنادي» دونوں کے معنی مجلس کے ہیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4730
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا ابو صالح، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يؤتى بالموت كهيئة كبش املح، فينادي مناد: يا اهل الجنة، فيشرئبون وينظرون، فيقول: هل تعرفون هذا ؟ فيقولون: نعم، هذا الموت وكلهم قد رآه، ثم ينادي: يا اهل النار، فيشرئبون وينظرون، فيقول: هل تعرفون هذا ؟ فيقولون: نعم، هذا الموت وكلهم قد رآه، فيذبح، ثم يقول: يا اهل الجنة، خلود فلا موت، ويا اهل النار: خلود فلا موت، ثم قرا وانذرهم يوم الحسرة إذ قضي الامر وهم في غفلة سورة مريم آية 39 وهؤلاء في غفلة اهل الدنيا وهم لا يؤمنون سورة مريم آية 39".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، ہم سے اعمش نے، ہم سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن موت ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا کہ اے جنت والو! تمام جنتی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، آواز دینے والا فرشتہ پوچھے گا۔ تم اس مینڈھے کو بھی پہچانتے ہو؟ وہ بولیں گے کہ ہاں، یہ موت ہے اور ان سے ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہو گا۔ پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا اور آواز دینے والا جنتیوں سے کہے گا کہ اب تمہارے لیے ہمیشگی ہے، موت تم پر کبھی نہ آئے گی اور اے جہنم والو! تمہیں بھی ہمیشہ اسی طرح رہنا ہے، تم پر بھی موت کبھی نہیں آئے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی «وأنذرهم يوم الحسرة إذ قضي الأمر وهم في غفلة‏» الخ اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا دو۔ جبکہ اخیر فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں (یعنی دنیادار لوگ) اور ایمان نہیں لاتے۔

Share this: