احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

15: 15- بَابُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ رَاكِبًا وَمَاشِيًا وَرِدْفًا عَلَى الْحِمَارِ:
باب: مریض کی عیادت کو سوار ہو کر یا پیدل یا گدھے پر کسی کے پیچھے بیٹھ کر جانا ہر طرح جائز درست ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 5663
حدثني يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة: ان اسامة بن زيد، اخبره ان النبي صلى الله عليه وسلم:"ركب على حمار على إكاف على قطيفة فدكية، واردف اسامة وراءه يعود سعد بن عبادة قبل وقعة بدر، فسار حتى مر بمجلس فيه عبد الله بن ابي ابن سلول، وذلك قبل ان يسلم عبد الله، وفي المجلس اخلاط من المسلمين والمشركين، عبدة الاوثان، واليهود وفي المجلس عبد الله بن رواحة، فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة خمر عبد الله بن ابي انفه بردائه، قال: لا تغبروا علينا، فسلم النبي صلى الله عليه وسلم، ووقف، ونزل فدعاهم إلى الله، فقرا عليهم القرآن، فقال له عبد الله بن ابي: يا ايها المرء إنه لا احسن مما تقول، إن كان حقا فلا تؤذنا به في مجلسنا، وارجع إلى رحلك فمن جاءك فاقصص عليه، قال ابن رواحة: بلى يا رسول الله فاغشنا به في مجالسنا فإنا نحب ذلك، فاستب المسلمون، والمشركون، واليهود حتى كادوا يتثاورون، فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم حتى سكتوا، فركب النبي صلى الله عليه وسلم دابته حتى دخل على سعد بن عبادة، فقال له: اي سعد الم تسمع ما قال ابو حباب يريد عبد الله بن ابي، قال سعد: يا رسول الله اعف عنه واصفح، فلقد اعطاك الله ما اعطاك، ولقد اجتمع اهل هذه البحرة على ان يتوجوه فيعصبوه، فلما رد ذلك بالحق الذي اعطاك شرق بذلك فذلك الذي فعل به ما رايت".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، انہیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گدھے کی پالان پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے، یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا۔ عبداللہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اس مجلس میں ہر گروہ کے لوگ تھے مسلمان بھی، مشرکین بھی یعنی بت پرست اور یہودی بھی۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، سواری کی گرد جب مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر اپنی ناک پر رکھ لی اور کہا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے پھر آپ نے انہیں اللہ کے طرف بلایا اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا میاں تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق ہیں تو ہماری مجلس میں انہیں بیان کر کے ہم کو تکلیف نہ پہنچایا کرو، اپنے گھر جاؤ وہاں جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کرو۔ اس پر ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں ضرور تشریف لائیں کیونکہ ہم ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں جھگڑے بازی ہو گئی اور قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کر بیٹھتے لیکن آپ انہیں خاموش کرتے رہے یہاں تک کہ سب خاموش ہو گئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا سعد! تم نے سنا نہیں ابوحباب نے کیا کہا، آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! اسے معاف کر دیجئیے اور اس سے درگزر فرمایئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ نعمت عطا فرما دی جو عطا فرمانی تھی (آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے) اس بستی کے لوگ اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور اپنا سردار بنا لیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا فرمایا ہے ختم کر دیا تو وہ اس پر بگڑ گیا یہ جو کچھ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا ہے اسی کا نتیجہ ہے۔

Share this: