احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

195: 195- بَابُ إِذَا اضْطَرَّ الرَّجُلُ إِلَى النَّظَرِ فِي شُعُورِ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَالْمُؤْمِنَاتِ إِذَا عَصَيْنَ اللَّهَ وَتَجْرِيدِهِنَّ:
باب: ذمی یا مسلمان عورتوں کے ضرورت کے وقت بال دیکھنا درست ہے اس طرح ان کا ننگا کرنا بھی جب وہ اللہ کی نافرمانی کریں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3081
حدثني محمد بن عبد الله بن حوشب الطائفي، حدثنا هشيم، اخبرنا حصين، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن، وكان عثمانيا، فقال: لابن عطية وكان علويا إني لاعلم ما الذي جرا صاحبك على الدماء سمعته يقول: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم والزبير، فقال:"ائتوا روضة كذا وتجدون بها امراة اعطاها حاطب كتابا، فاتينا الروضة فقلنا الكتاب، قالت: لم يعطني فقلنا لتخرجن او لاجردنك، فاخرجت من حجزتها فارسل إلى حاطب، فقال: لا تعجل والله ما كفرت ولا ازددت للإسلام إلا حبا ولم يكن احد من اصحابك إلا وله بمكة من يدفع الله به عن اهله وماله، ولم يكن لي احد فاحببت ان اتخذ عندهم يدا فصدقه النبي صلى الله عليه وسلم قال عمر: دعني اضرب عنقه فإنه قد نافق، فقال: ما يدريك لعل الله اطلع على اهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فهذا الذي جراه".
مجھ سے محمد بن عبداللہ بن حوشب الطائفی نے بیان کیا ‘ ان سے ہشیم نے بیان کیا ‘ انہیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن عبیدہ نے اور انہیں ابی عبدالرحمٰن نے اور وہ عثمانی تھے ‘ انہوں نے عطیہ سے کہا ‘ جو علوی تھے ‘ کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب (علی رضی اللہ عنہ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی ‘ میں نے خود ان سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا۔ اور ہدایت فرمائی کہ روضہ خاخ پر جب تم پہنچو ‘ تو انہیں ایک عورت (سارہ نامی) ملے گی۔ جسے حاطب ابن بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط دے کر بھیجا ہے (تم وہ خط اس سے لے کر آؤ) چنانچہ جب ہم اس باغ تک پہنچے ہم نے اس عورت سے کہا خط لا۔ اس نے کہا کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے مجھے کوئی خط نہیں دیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط خود بخود نکال کر دیدے ورنہ (تلاشی کے لیے) تمہارے کپڑے اتار لیے جائیں گے۔ تب کہیں اس نے خط اپنے نیفے میں سے نکال کر دیا۔ (جب ہم نے وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ‘ تو) آپ نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا انہوں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں! اللہ کی قسم! میں نے نہ کفر کیا ہے اور نہ میں اسلام سے ہٹا ہوں ‘ صرف اپنے خاندان کی محبت نے اس پر مجبور کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (مہاجرین) میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے رشتہ دار وغیرہ مکہ میں نہ ہوں۔ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کے خاندان والوں اور ان کی جائیداد کی حفاظت نہ کراتا ہو۔ لیکن میرا وہاں کوئی بھی آدمی نہیں ‘ اس لیے میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر ایک احسان کر دوں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی بات کی تصدیق فرمائی۔ عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے مجھے اس کا سر اتارنے دیجئیے یہ تو منافق ہو گیا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا معلوم! اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف تھا اور وہ خود اہل بدر کے بارے میں فرما چکا ہے کہ جو چاہو کرو۔ ابوعبدالرحمٰن نے کہا، علی رضی اللہ عنہ کو اسی ارشاد نے (کہ تم جو چاہو کرو، خون ریزی پر) دلیر بنا دیا ہے۔

Share this: