احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

18: 18- بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ:
باب: چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنے کے بارے میں۔
قال ابو عبد الله: ولم ير الحسن باسا ان يصلى على الجمد والقناطر وإن جرى تحتها بول او فوقها او امامها إذا كان بينهما سترة، وصلى ابو هريرة على سقف المسجد بصلاة الإمام، وصلى ابن عمر على الثلج.
‏‏‏‏ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتداء میں نماز پڑھی (اور وہ نیچے تھا) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے برف پر نماز پڑھی۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 377
حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ابو حازم، قال: سالوا سهل بن سعد، من اي شيء المنبر ؟ فقال: ما بقي بالناس اعلم مني، هو من اثل الغابة، عمله فلان مولى فلانة لرسول الله صلى الله عليه وسلم،"وقام عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حين عمل ووضع، فاستقبل القبلة كبر وقام الناس خلفه، فقرا وركع وركع الناس خلفه، ثم رفع راسه، ثم رجع القهقرى فسجد على الارض، ثم عاد إلى المنبر، ثم ركع، ثم رفع راسه، ثم رجع القهقرى حتى سجد بالارض، فهذا شانه"، قال ابو عبد الله: قال علي بن المديني: سالني احمد بن حنبل رحمه الله عن هذا الحديث، قال: فإنما اردت ان النبي صلى الله عليه وسلم كان اعلى من الناس، فلا باس ان يكون الإمام اعلى من الناس بهذا الحديث، قال: فقلت: إن سفيان بن عيينة كان يسال عن هذا كثيرا فلم تسمعه منه، قال: لا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا۔ کہا کہ لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی سے پوچھا کہ منبرنبوی کس چیز کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب (دنیائے اسلام میں) اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ فلاں عورت کے غلام فلاں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ تیار کر کے (مسجد میں) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ آپ کے پیچھے تمام لوگ بھی رکوع میں چلے گئے۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قرآت رکوع کی، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ یہ ہے منبر کا قصہ۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کو پوچھا۔ علی نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں لوگوں سے اونچے مقام پر کھڑے ہوئے تھے اس لیے اس میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو۔ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ سفیان بن عیینہ سے یہ حدیث اکثر پوچھی جاتی تھی، آپ نے بھی یہ حدیث ان سے سنی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔

Share this: