احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

155: 155- بَابُ قَتْلِ النَّائِمِ الْمُشْرِكِ:
باب: (حربی) مشرک سو رہا ہو تو اس کا مار ڈالنا درست ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3022
حدثنا علي بن مسلم، حدثنا يحيى بن زكرياء بن ابي زائدة، قال: حدثني ابي، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب رضي الله عنهما، قال:"بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا من الانصار إلى ابي رافع ليقتلوه فانطلق رجل منهم فدخل حصنهم، قال: فدخلت في مربط دواب لهم، قال: واغلقوا باب الحصن، ثم إنهم فقدوا حمارا لهم فخرجوا يطلبونه، فخرجت فيمن خرج اريهم انني اطلبه معهم، فوجدوا الحمار فدخلوا ودخلت واغلقوا باب الحصن ليلا، فوضعوا المفاتيح في كوة حيث اراها فلما ناموا اخذت المفاتيح ففتحت باب الحصن، ثم دخلت عليه، فقلت: يا ابا رافع فاجابني فتعمدت الصوت فضربته، فصاح، فخرجت، ثم جئت، ثم رجعت كاني مغيث، فقلت: يا ابا رافع وغيرت صوتي، فقال: ما لك لامك الويل، قلت: ما شانك، قال: لا ادري من دخل علي فضربني، قال: فوضعت سيفي في بطنه، ثم تحاملت عليه حتى قرع العظم، ثم خرجت وانا دهش فاتيت سلما لهم لانزل منه فوقعت، فوثئت رجلي، فخرجت إلى اصحابي، فقلت: ما انا ببارح حتى اسمع الناعية، فما برحت حتى سمعت نعايا ابي رافع تاجر اهل الحجاز، قال: فقمت وما بي قلبة حتى اتينا النبي صلى الله عليه وسلم فاخبرناه".
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے چند آدمیوں کو ابورافع (یہودی) کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ‘ ان میں سے ایک صاحب (عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ) آگے چل کر اس قلعہ کے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اندر جانے کے بعد میں اس مکان میں گھس گیا ‘ جہاں ان کے جانور بندھا کرتے تھے۔ بیان کیا کہ انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا ‘ لیکن اتفاق کہ ان کا ایک گدھا ان کے مویشیوں میں سے گم تھا۔ اس لیے اسے تلاش کرنے کے لیے باہر نکلے۔ (اس خیال سے کہ کہیں پکڑا نہ جاؤں) نکلنے والوں کے ساتھ میں بھی باہر آ گیا ‘ تاکہ ان پر یہ ظاہر کر دوں کہ میں بھی تلاش کرنے والوں میں سے ہوں ‘ آخر گدھا انہیں مل گیا ‘ اور وہ پھر اندر آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ اندر آ گیا اور انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا ‘ رات کا وقت تھا ‘ کنجیوں کا گچھا انہوں نے ایک ایسے طاق میں رکھا ‘ جسے میں نے دیکھ لیا تھا۔ جب وہ سب سو گئے تو میں نے چابیوں کا گچھا اٹھایا اور دروازہ کھول کر ابورافع کے پاس پہنچا۔ میں نے اسے آواز دی ‘ ابورافع! اس نے جواب دیا اور میں فوراً اس کی آواز کی طرف بڑھا اور اس پر وار کر بیٹھا۔ وہ چیخنے لگا تو میں باہر چلا آیا۔ اس کے پاس سے واپس آ کر میں پھر اس کے کمرہ میں داخل ہوا ‘ گویا میں اس کی مدد کو پہنچا تھا۔ میں نے پھر آواز دی ابورافع! اس مرتبہ میں نے اپنی آواز بدل لی تھی، اس نے کہا کہ کیا کر رہا ہے، تیری ماں برباد ہو۔ میں نے پوچھا، کیا بات پیش آئی؟ وہ کہنے لگا ‘ نہ معلوم کون شخص میرے کمرے میں آ گیا ‘ اور مجھ پر حملہ کر بیٹھا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ اب کی بار میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر اتنی زور سے دبائی کہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی ‘ جب میں اس کے کمرہ سے نکلا تو بہت دہشت میں تھا۔ پھر قلعہ کی ایک سیڑھی پر میں آیا تاکہ اس سے نیچے اتر جاؤں مگر میں اس پر سے گر گیا ‘ اور میرے پاؤں میں موچ آ گئی ‘ پھر جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کی موت کا اعلان خود نہ سن لوں۔ چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا۔ اور میں نے رونے والی عورتوں سے ابورافع حجاز کے سوداگر کی موت کا اعلان بلند آواز سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں وہاں سے اٹھا ‘ اور مجھے اس وقت کچھ بھی درد معلوم نہیں ہوا ‘ پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بشارت دی۔

Share this: