احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابٌ:
باب:۔۔۔
وقال مجاهد: ذو مرة: ذو قوة، قاب قوسين: حيث الوتر من القوس، ضيزى: عوجاء، واكدى: قطع عطاءه، رب الشعرى: هو مرزم الجوزاء، الذي وفى: وفى ما فرض عليه، ازفت الآزفة: اقتربت الساعة، سامدون: البرطمة، وقال عكرمة: يتغنون بالحميرية، وقال إبراهيم: افتمارونه: افتجادلونه ومن قرا افتمرونه يعني افتجحدونه، وقال: ما زاغ البصر: بصر محمد صلى الله عليه وسلم، وما طغى: وما جاوز ما راى، فتماروا: كذبوا، وقال الحسن: إذا هوى: غاب، وقال ابن عباس: اغنى واقنى: اعطى فارضى.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا کہ «ذو مرة‏» کے معنی زور دار، زبردست (یعنی جبرائیل علیہ السلام)۔ «قاب قوسين‏» یعنی کمان کے دونوں کنارے جہاں پر چلہ لگا رہتا ہے۔ «ضيزى‏» کے معنی ٹیڑھی، غلط تقسیم۔ «وأكدى‏» اور دینا موقوف کر دیا۔ «الشعرى‏» وہ ستارہ ہے جسے «مرزم الجوزاء» بھی کہتے ہیں۔ «الذي وفى‏» یعنی اللہ نے جو ان پر فرض کیا تھا وہ بجا لائے۔ «أزفت الآزفة‏» قیامت قریب آ گئی۔ «سامدون‏» کے معنی کھیل کرتے ہو۔ «برطمة‏.‏» ایک کھیل کا نام ہے۔ عکرمہ نے کہا «حميري» زبان میں گانے کے معنی میں ہے اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا کہ «أفتمارونه‏» کا معنی کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ بعضوں نے یوں پڑھا ہے «أفتمرونه» یعنی کیا تم اس کام کا انکار کرتے ہو۔ «ما زاغ البصر‏» سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک مراد ہے۔ «وما طغى‏» یعنی جتنا حکم تھا اتنا ہی دیکھا (اس سے زیادہ نہیں بڑھے)۔ «فتماروا‏» سورۃ القمر میں ہے یعنی جھٹلایا۔ (امام حسن بصری نے کہا «إذا هوى‏‏» یعنی غائب ہوا اور ڈوب گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أغنى وأقنى‏» کا معنی یہ ہے کہ دیا اور راضی کیا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4855
حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن عامر، عن مسروق، قال: قلت لعائشة رضي الله عنها: يا امتاه، هل راى محمد صلى الله عليه وسلم ربه ؟ فقالت: لقد قف شعري مما قلت اين انت من ثلاث من حدثكهن، فقد كذب من حدثك ان محمدا صلى الله عليه وسلم راى ربه فقد كذب، ثم قرات: لا تدركه الابصار وهو يدرك الابصار وهو اللطيف الخبير سورة الانعام آية 103 وما كان لبشر ان يكلمه الله إلا وحيا او من وراء حجاب سورة الشورى آية 51، ومن حدثك انه يعلم ما في غد فقد كذب، ثم قرات وما تدري نفس ماذا تكسب غدا سورة لقمان آية 34، ومن حدثك انه كتم فقد كذب، ثم قرات يايها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك سورة المائدة آية 67 الآية، ولكنه راى جبريل عليه السلام في صورته مرتين".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد نے، ان سے عامر نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير‏» سے لے کر «من وراء حجاب‏» تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ بھی جھوٹا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے آیت «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا‏» یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ کی تلاوت فرمائی۔ اور جو شخص تم میں سے کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك‏» یعنی اے رسول! پہنچا دیجئیے وہ سب کچھ جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔

Share this: