احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ: {وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى}:
باب: آیت کی تفسیر ”اور لوگ تجھے نشہ میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہے“۔
وقال ابن عيينة: المخبتين: المطمئنين، وقال ابن عباس: في إذا تمنى القى الشيطان، في امنيته: إذا حدث القى الشيطان في حديثه، فيبطل الله ما يلقي الشيطان، ويحكم آياته، ويقال امنيته قراءته، إلا اماني: يقرءون، ولا يكتبون، وقال مجاهد: مشيد بالقصة جص، وقال غيره: يسطون: يفرطون من السطوة، ويقال: يسطون يبطشون، وهدوا إلى الطيب من القول: الهموا، وقال ابن ابي خالد: إلى القرآن وهدوا إلى صراط الحميد الإسلام، وقال ابن عباس: بسبب: بحبل إلى سقف البيت ثاني عطفه مستكبر، تذهل: تشغل"
‏‏‏‏ سفیان بن عیینہ نے کہا «المخبتين‏» کا معنی اللہ پر بھروسہ کرنے والے (یا، اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «في أمنيته‏» کی تفسیر میں کہا جب پیغمبر کلام کرتا ہے (اللہ کے حکم سناتا ہے) تو شیطان اس کی بات میں اپنی طرف سے (پیغمبر کی آواز بنا کر) کچھ ملا دیتا ہے۔ پھر اللہ پاک شیطان کا ملایا ہوا مٹا دیتا ہے اور اپنی سچی آیتوں کو قائم رکھتا ہے۔ بعضوں نے کہا «أمنيته‏» سے پیغمبر کی قرآت مراد ہے۔ «إلا أماني‏» جو سورۃ البقرہ میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مگر آرزوئیں۔ اور مجاہد نے کہا (طبری نے اس کو وصل کیا)۔ «مشيد» کے معنی چونہ گچ کئے گئے۔ اوروں نے کہا «يسطون‏» کا معنی یہ ہے زیادتی کرتے ہیں یہ لفظ «سطوة» سے نکلا ہے۔ بعضوں نے کہا «يسطون» کا معنی سخت پکڑتے ہیں۔ «وهدوا إلى الطيب من القول‏» یعنی اچھی بات کا ان کو الہام کیا گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «بسبب‏» کا معنی رسی جو چھت تک لگی ہو۔ «تذهل‏» کا معنی غافل ہو جائے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4741
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا ابي، حدثنا الاعمش، حدثنا ابو صالح، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم، يقول الله عز وجل يوم القيامة:"يا آدم، يقول: لبيك ربنا وسعديك، فينادى بصوت، إن الله يامرك ان تخرج من ذريتك بعثا إلى النار، قال: يا رب، وما بعث النار ؟ قال: من كل الف اراه، قال: تسع مائة وتسعة وتسعين، فحينئذ تضع الحامل حملها، ويشيب الوليد، وترى الناس سكارى وما هم بسكارى ولكن عذاب الله شديد سورة الحج آية 2، فشق ذلك على الناس حتى تغيرت وجوههم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"من ياجوج وماجوج تسع مائة وتسعة وتسعين، ومنكم واحد، ثم انتم في الناس كالشعرة السوداء في جنب الثور الابيض، او كالشعرة البيضاء في جنب الثور الاسود، وإني لارجو ان تكونوا ربع اهل الجنة، فكبرنا، ثم قال: ثلث اهل الجنة، فكبرنا، ثم قال: شطر اهل الجنة، فكبرنا". قال ابو اسامة، عن الاعمش: وترى الناس سكارى وما هم بسكارى سورة الحج آية 2، وقال: من كل الف تسع مائة وتسعة وتسعين، وقال جرير، وعيسى بن يونس،وابو معاوية 0 سكرى وما هم بسكرى 0.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک قیامت کے دن آدم علیہ السلام سے فرمائے گا۔ اے آدم! وہ عرض کریں گے، میں حاضر ہوں اے رب! تیری فرمانبرداری کے لیے۔ پروردگار آواز سے پکارے گا (یا فرشتہ پروردگار کی طرف سے آواز دے گا) اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔ وہ عرض کریں گے اے پروردگار! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہو گا (راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں) ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے (گویا ہزار میں ایک جنتی ہو گا) یہ ایسا سخت وقت ہو گا کہ پیٹ والی کا حمل گر جائے گا اور بچہ (فکر کے مارے) بوڑھا ہو جائے گا (یعنی جو بچپن میں مرا ہو) اور تو قیامت کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہو گا (یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے (مارے ڈر کے) بدل گئے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لیے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج (جو کافر ہیں) کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ غرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جو دوزخی ہوں گے) ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے (باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی)۔ یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے (آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی) ہم نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور ابواسامہ نے اعمش سے یوں روایت کیا «ترى الناس سكارى وما هم بسكارى‏» جیسے مشہور قرآت ہے اور کہا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے نکالو (تو ان کی روایت حفص بن غیاث کے موافق ہے) اور جریر بن عبدالحمید اور عیسیٰ بن یونس اور ابومعاویہ نے یوں نقل کیا «سكرى وما هم بسكرى‏» (حمزہ اور کسائی کی بھی یہی قرآت ہے)۔

Share this: