احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

4: 4- بَابُ قَوْلِهِ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلاً}:
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دنیوی اسباب دے دلا کر خوبی کے ساتھ رخصت کر دوں“۔
وقال معمر: التبرج ان تخرج محاسنها: سنة الله: استنها جعلها.
‏‏‏‏ معمر نے کہا کہ «تبرج» یہ ہے کہ عورت اپنے حسن کا مرد کے سامنے اظہار کرے۔ «سنة الله» سے مراد وہ طریقہ ہے جو اللہ نے اپنے لیے مقرر کر رکھا ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4785
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءها حين امره الله ان يخير ازواجه، فبدا بي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:"إني ذاكر لك امرا فلا عليك ان لا تستعجلي حتى تستامري ابويك، وقد علم ان ابوي لم يكونا يامراني بفراقه"، قالت: ثم قال:"إن الله قال: يايها النبي قل لازواجك سورة الاحزاب آية 28 إلى تمام الآيتين"، فقلت له: ففي اي هذا استامر ابوي، فإني اريد الله ورسوله والدار الآخرة.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی ازواج کو (آپ کے سامنے رہنے یا آپ سے علیحدگی کا) اختیار دیں تو آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں ضروری نہیں کہ تم اس میں جلد بازی سے کام لو، اپنے والدین سے بھی مشورہ کر سکتی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے ہی تھے کہ میرے والد کبھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «يا أيها النبي قل لأزواجك‏» کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے آخر آیت تک۔ میں نے عرض کیا، لیکن کس چیز کے لیے مجھے اپنے والدین سے مشورہ کی ضرورت ہے، کھلی ہوئی بات ہے کہ میں اللہ، اس کے رسول اور عالم آخرت کو چاہتی ہوں۔

Share this: