احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

6: 6- بَابُ ذِكْرِ الْمَلاَئِكَةِ:
باب: فرشتوں کا بیان۔
وقال انس: قال عبد الله بن سلام للنبي صلى الله عليه وسلم إن جبريل عليه السلام عدو اليهود من الملائكة وقال ابن عباس لنحن الصافون سورة الصافات آية 165 الملائكة.
انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جبریل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ الصافات میں بیان کہ «نحن الصافون» میں مراد ملائکہ ہیں۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3207
حدثنا هدبة بن خالد، حدثنا همام، عن قتادة، وقال لي خليفة، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد وهشام، قالا: حدثنا قتادة، حدثنا انس بن مالك، عن مالك بن صعصعة رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:"بينا انا عند البيت بين النائم واليقظان، وذكر بين الرجلين فاتيت بطست من ذهب ملئ حكمة وإيمانا فشق من النحر إلى مراق البطن، ثم غسل البطن بماء زمزم، ثم ملئ حكمة وإيمانا واتيت بدابة ابيض دون البغل، وفوق الحمار البراق فانطلقت مع جبريل حتى اتينا السماء الدنيا، قيل: من هذا ؟، قال: جبريل، قيل: من معك ؟، قيل: محمد، قيل: وقد ارسل إليه، قال: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على آدم فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من ابن ونبي، فاتينا السماء الثانية، قيل: من هذا ؟، قال: جبريل، قيل: من معك ؟، قال: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: ارسل إليه، قال: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على عيسى ويحيى، فقالا: مرحبا بك من اخ ونبي، فاتينا السماء الثالثة، قيل: من هذا ؟، قيل: جبريل، قيل: من معك ؟، قيل: محمد، قيل: وقد ارسل إليه، قال: نعم، قيل مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت يوسف فسلمت عليه، قال: مرحبا بك من اخ ونبي، فاتينا السماء الرابعة، قيل: من هذا ؟، قال: جبريل، قيل: من معك ؟، قيل: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد ارسل إليه، قيل: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على إدريس فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي، فاتينا السماء الخامسة، قيل: من هذا ؟، قال: جبريل، قيل: ومن معك ؟، قيل: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد ارسل إليه، قال: نعم، قيل: مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتينا على هارون فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي، فاتينا على السماء السادسة، قيل: من هذا ؟، قيل: جبريل، قيل: من معك ؟، قيل: محمد صلى الله عليه وسلم، قيل: وقد ارسل إليه مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على موسى فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي فلما جاوزت بكى، فقيل: ما ابكاك ؟، قال: يا رب هذا الغلام الذي بعث بعدي يدخل الجنة من امته افضل مما يدخل من امتي، فاتينا السماء السابعة، قيل: من هذا ؟، قيل: جبريل، قيل: من معك ؟، قيل: محمد، قيل: وقد ارسل إليه مرحبا به ولنعم المجيء جاء، فاتيت على إبراهيم فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من ابن ونبي فرفع لي البيت المعمور، فسالت جبريل، فقال: هذا البيت المعمور يصلي فيه كل يوم سبعون الف ملك إذا خرجوا لم يعودوا إليه آخر ما عليهم ورفعت لي سدرة المنتهى، فإذا نبقها كانه قلال هجر وورقها كانه آذان الفيول في اصلها اربعة انهار نهران باطنان ونهران ظاهران، فسالت جبريل، فقال: اما الباطنان ففي الجنة واما الظاهران النيل والفرات، ثم فرضت علي خمسون صلاة فاقبلت حتى جئت موسى، فقال: ما صنعت، قلت: فرضت علي خمسون صلاة، قال: انا اعلم بالناس منك عالجت بني إسرائيل اشد المعالجة، وإن امتك لا تطيق فارجع إلى ربك فسله فرجعت فسالته فجعلها اربعين، ثم مثله، ثم ثلاثين، ثم مثله فجعل عشرين، ثم مثله فجعل عشرا فاتيت موسى، فقال: مثله فجعلها خمسا فاتيت موسى، فقال: ما صنعت، قلت: جعلها خمسا، فقال: مثله، قلت: سلمت بخير فنودي إني قد امضيت فريضتي وخففت، عن عبادي واجزي الحسنة عشرا، وقال همام، عن قتادة، عن الحسن عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم في البيت المعمور.
ہم سے ہدبۃ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا۔ پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی۔ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا۔ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں، پھر میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، آؤ پیارے بیٹے اور اچھے نبی۔ اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں۔ اب ادھر سے جواب آیا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔ اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ علیہ السلام سے ملا، ان حضرات نے بھی خوش آمدید، مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔ پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ جواب ملا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں، اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں، یہاں یوسف علیہ السلام سے میں ملا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے بھائی اور نبی، یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا، کون صاحب، جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا، جواب دیا کہ ہاں، پھر آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور سلام کیا، انہوں نے فرمایا، مرحبا، بھائی اور نبی۔ یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، پوچھا گیا، انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں، آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔ یہاں ہم ہارون علیہ السلام سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مبارک میرے بھائی اور نبی، تم اچھی کشادہ جگہ آئے، یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں؟ کہا کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا تھا کہا ہاں، کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے، جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ مرحبا، اچھے آنے والے۔ یہاں میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نبی، مبارک، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو، اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔ اور مجھے سدرۃ المنتہیٰ بھی دکھایا گیا، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان، اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں، دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں، اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ میں جب واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی گئی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، بنی اسرائیل کا مجھے برا تجربہ ہو چکا ہے۔ تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو، اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو، میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کر دیں۔ پھر بھی موسیٰ علیہ السلام اپنی بات (یعنی تخفیف کرانے) پر مصر رہے۔ اس مرتبہ تیس وقت کی رہ گئیں۔ پھر انہوں نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کر دیا۔ میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لیے اپنا اصرار جاری رکھا۔ اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کر دیں۔ اب موسیٰ علیہ السلام سے ملا، تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ کے سپرد کر چکا۔ پھر آواز آئی۔ میں نے اپنا فریضہ (پانچ نمازوں کا) جاری کر دیا۔ اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔ اور ہمام نے کہا، ان سے قتادہ نے کہا، ان سے حسن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المعمور کے بارے میں الگ روایت کی ہے۔

Share this: