احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: 2- بَابُ ضَالَّةِ الإِبِلِ:
باب: بھولے بھٹکے اونٹ کا بیان۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 2427
حدثنا عمرو بن عباس، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن ربيعة، حدثني يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني رضي الله عنه، قال:"جاء اعرابي النبي صلى الله عليه وسلم، فساله عما يلتقطه ؟ فقال: عرفها سنة، ثم احفظ عفاصها، ووكاءها، فإن جاء احد يخبرك بها، وإلا فاستنفقها، قال: يا رسول الله، فضالة الغنم ؟ قال: لك او لاخيك او للذئب، قال: ضالة الإبل ؟ فتمعر وجه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ما لك ولها، معها حذاؤها، وسقاؤها ترد الماء، وتاكل الشجر".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے (تو اسے اس کا مال واپس کر دے) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہو گی یا تمہارے بھائی (مالک) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیا ہو؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ (جن سے وہ چلے گا) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔

Share this: