احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: 2- بَابُ مَنَاقِبِ الْمُهَاجِرِينَ وَفَضْلِهِمْ:
باب: مہاجرین کے مناقب اور فضائل کا بیان۔
وقول الله تعالى: للفقراء المهاجرين الذين اخرجوا من ديارهم واموالهم يبتغون فضلا من الله ورضوانا وينصرون الله ورسوله اولئك هم الصادقون سورة الحشر آية 8 , وقال الله: إلا تنصروه فقد نصره الله إلى قوله إن الله معنا سورة التوبة آية 40 قالت: عائشة , وابو سعيد , وابن عباس رضي الله عنهم , وكان ابو بكر مع النبي صلى الله عليه وسلم في الغار.
‏‏‏‏ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یعنی عبداللہ بن ابی قحافہ تیمی رضی اللہ عنہ بھی مہاجرین میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الحشر) میں ان مہاجرین کا ذکر کیا، ان مفلس مہاجروں کا یہ (خاص طور پر) حق ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے جدا کر دئیے گئے ہیں جو اللہ کا فضل اور رضا مندی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرنے کو آئے ہیں یہی لوگ سچے ہیں۔ اور (سورۃ التوبہ میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا «إلا تنصروه فقد نصره الله‏» اگر تم لوگ ان کی (یعنی رسول کی) مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد تو خود اللہ کر چکا ہے۔ آخر آیت «إن الله معنا‏» تک۔ عائشہ، ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ہجرت کے وقت) غار ثور میں رہے تھے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 3652
حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: اشترى ابو بكر رضي الله عنه من عازب رحلا بثلاثة عشر درهما، فقال ابو بكر لعازب: مر البراء فليحمل إلي رحلي، فقال عازب: لا حتى تحدثنا كيف صنعت انت ورسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرجتما من مكة والمشركون يطلبونكم، قال: ارتحلنا من مكة فاحيينا او سرينا ليلتنا ويومنا حتى اظهرنا وقام قائم الظهيرة، فرميت ببصري هل ارى من ظل فآوي إليه , فإذا صخرة اتيتها فنظرت بقية ظل لها فسويته، ثم فرشت للنبي صلى الله عليه وسلم فيه، ثم قلت: له اضطجع يا نبي الله , فاضطجع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم انطلقت انظر ما حولي هل ارى من الطلب احدا , فإذا انا براعي غنم يسوق غنمه إلى الصخرة يريد منها الذي اردنا فسالته، فقلت له: لمن انت يا غلام ؟ قال: لرجل من قريش , سماه فعرفته، فقلت: هل في غنمك من لبن ؟، قال: نعم، قلت: فهل انت حالب لنا ؟ قال: نعم , فامرته , فاعتقل شاة من غنمه، ثم امرته ان ينفض ضرعها من الغبار، ثم امرته ان ينفض كفيه، فقال: هكذا ضرب إحدى كفيه بالاخرى فحلب لي كثبة من لبن وقد جعلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم إداوة على فمها خرقة , فصببت على اللبن حتى برد اسفله , فانطلقت به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فوافقته قد استيقظ، فقلت: اشرب يا رسول الله فشرب حتى رضيت، ثم قلت: قد آن الرحيل يا رسول الله، قال:"بلى", فارتحلنا والقوم يطلبوننا فلم يدركنا احد منهم غير سراقة بن مالك بن جعشم على فرس له، فقلت: هذا الطلب قد لحقنا يا رسول الله، فقال:"لا تحزن إن الله معنا".
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے اور ان سے براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (ان کے والد) عازب رضی اللہ عنہ سے ایک پالان تیرہ درہم میں خریدا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عازب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ براء (اپنے بیٹے) سے کہو کہ وہ میرے گھر یہ پالان اٹھا کر پہنچا دیں اس پر عازب رضی اللہ عنہ نے کہا یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ وہ واقعہ بیان نہ کریں کہ آپ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے ہجرت کرنے کے لیے) کس طرح نکلے تھے حالانکہ مشرکین آپ دونوں کو تلاش بھی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مکہ سے نکلنے کے بعد ہم رات بھر چلتے رہے اور دن میں بھی سفر جاری رکھا۔ لیکن جب دوپہر ہو گئی تو میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کہیں کوئی سایہ نظر آ جائے اور ہم اس میں کچھ آرام کر سکیں۔ آخر ایک چٹان دکھائی دی اور میں نے اس کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ سایہ ہے۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک فرش وہاں بچھا دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اب آرام فرمائیں۔ چنانچہ آپ لیٹ گئے۔ پھر میں چاروں طرف دیکھتا ہوا نکلا کہ کہیں لوگ ہماری تلاش میں نہ آئے ہوں۔ پھر مجھ کو بکریوں کا ایک چرواہا دکھائی دیا جو اپنی بکریاں ہانکتا ہوا اسی چٹان کی طرف آ رہا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح سایہ کی تلاش میں تھا۔ میں نے بڑھ کر اس سے پوچھا کہ لڑکے تم کس کے غلام ہو۔ اس نے قریش کے ایک شخص کا نام لیا تو میں نے اسے پہچان لیا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا: کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے۔ اس نے کہا جی ہاں۔ میں نے کہا: کیا تم دودھ دوہ سکتے ہوں؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا اور اس نے اپنے ریوڑ کی ایک بکری باندھ دی۔ پھر میرے کہنے پر اس نے اس کے تھن کے غبار کو جھاڑا۔ اب میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ بھی جھاڑ لے۔ اس نے یوں اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارا اور میرے لیے تھوڑا سا دودھ دوہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک برتن میں نے پہلے ہی سے ساتھ لے لیا تھا اور اس کے منہ کو کپڑے سے بند کر دیا تھا (اس میں ٹھنڈا پانی تھا) پھر میں نے دودھ پر وہ پانی (ٹھنڈا کرنے کے لیے) ڈالا اتنا کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہو گیا تو اسے آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ آپ بھی بیدار ہو چکے تھے۔ میں نے عرض کیا: دودھ پی لیجئے۔ آپ نے اتنا پیا کہ مجھے خوشی حاصل ہو گئی، پھر میں نے عرض کیا کہ اب کوچ کا وقت ہو گیا ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے، چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور مکہ والے ہماری تلاش میں تھے لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا ہم کو کسی نے نہیں پایا، وہ اپنے گھوڑے پر سوار تھا، میں نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارا پیچھا کرنے والا دشمن ہمارے قریب آ پہنچا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔

Share this: