احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدثنا قتيبة، حدثنا حماد، عن يحيى بن عتيق، عن الحسن، قال: اكتب في المصحف في اول الإمام بسم الله الرحمن الرحيم، واجعل بين السورتين خطا، وقال مجاهد: ناديه عشيرته الزبانية الملائكة، وقال معمر الرجعى المرجع: لنسفعن، قال: لناخذن ولنسفعن بالنون وهي الخفيفة سفعت بيده اخذت.
‏‏‏‏ اور قتیبہ نے بیان کیا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن عتیق نے کہ امام حسن بصری نے کہا کہ مصحف میں سورۃ فاتحہ کے شروع میں «بسم الله الرحمن الرحيم» لکھو اور دو سورتوں کے درمیان ایک خط کھینچ لیا کرو جس سے معلوم ہو کہ نئی سورت شروع ہوئی۔ مجاہد نے کہا کہ «ناديه‏» یعنی اپنے کنبے والوں کو۔ «الزبانية‏» دوزخ کے فرشتے اور معمر نے کہا «الرجعى‏» لوٹ جانے کا مقام۔ «لنسفعن‏» البتہ ہم پکڑیں گے۔ اس میں نون خفیفہ ہے (گویا یہ الف سے لکھا جاتا ہے یہ «سفعت بيده» سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4953
باب حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب. ح وحدثني سعيد بن مروان، حدثنا محمد بن عبد العزيز بن ابي رزمة، اخبرنا ابو صالح سلمويه، قال: حدثني عبد الله، عن يونس بن يزيد، قال: اخبرني ابن شهاب، ان عروة بن الزبير اخبره، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:"كان اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم الرؤيا الصادقة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء، فكان يلحق بغار حراء، فيتحنث فيه، قال: والتحنث التعبد الليالي ذوات العدد قبل ان يرجع إلى اهله ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة فيتزود بمثلها، حتى فجئه الحق وهو في غار حراء، فجاءه الملك، فقال: اقرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"ما انا بقارئ"، قال: فاخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، قلت:"ما انا بقارئ"، فاخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، قلت:"ما انا بقارئ"، فاخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا باسم ربك الذي خلق { 1 } خلق الإنسان من علق { 2 } اقرا وربك الاكرم { 3 } الذي علم بالقلم { 4 } الآيات إلى قوله علم الإنسان ما لم يعلم سورة العلق آية 1 - 5، فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم ترجف بوادره حتى دخل على خديجة، فقال: زملوني زملوني، فزملوه حتى ذهب عنه الروع، قال لخديجة:"اي خديجة، ما لي لقد خشيت على نفسي"، فاخبرها الخبر، قالت خديجة: كلا ابشر، فوالله لا يخزيك الله ابدا، فوالله إنك لتصل الرحم، وتصدق الحديث، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، فانطلقت به خديجة حتى اتت به ورقة بن نوفل وهو ابن عم خديجة اخي ابيها، وكان امرا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العربي، ويكتب من الإنجيل بالعربية ما شاء الله ان يكتب وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت خديجة: يا ابن عم، اسمع من ابن اخيك، قال ورقة: يا ابن اخي، ماذا ترى ؟ فاخبره النبي صلى الله عليه وسلم خبر ما راى، فقال ورقة: هذا الناموس الذي انزل على موسى ليتني فيها جذعا ليتني اكون حيا ذكر حرفا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اومخرجي هم ؟"قال ورقة: نعم لم يات رجل بما جئت به إلا اوذي، وإن يدركني يومك حيا انصرك نصرا مؤزرا، ثم لم ينشب ورقة ان توفي وفتر الوحي فترة حتى حزن رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے سعید بن مروان نے بیان کیا اور ان سے محمد بن عبدالعزیز بن ابی رزمہ نے، انہیں ابوصالح سلمویہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عبداللہ نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے پہلے سچے خواب دکھائے جاتے تھے چنانچہ اس دور میں آپ جو خواب بھی دیکھ لیتے وہ صبح کی روشنی کی طرح بیداری میں نمودار ہوتا۔ پھر آپ کو تنہائی بھلی لگنے لگی۔ اس دور میں آپ غار حرا تنہا تشریف لے جاتے اور آپ وہاں «تحنث» کیا کرتے تھے۔ عروہ نے کہا کہ «تحنث» سے عبادت مراد ہے۔ آپ وہاں کئی کئی راتیں جاگتے، گھر میں نہ آتے اور اس کے لیے اپنے گھر سے توشہ لے جایا کرتے تھے۔ پھر جب توشہ ختم ہو جاتا پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے یہاں لوٹ کر تشریف لاتے اور اتنا ہی توشہ پھر لے جاتے۔ اسی حال میں آپ غار حرا میں تھے کہ دفعتاً آپ پر وحی نازل ہوئی چنانچہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا پڑھئیے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ مجھے فرشتہ نے پکڑ لیا اور اتنا بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئیے! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے پھر دوسری مرتبہ مجھے پکڑ کر اس طرح بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا اور چھوڑنے کے بعد کہا کہ پڑھئیے! میں نے اس مرتبہ بھی یہی کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے تیسری مرتبہ پھر اسی طرح مجھے پکڑ کر بھینچا کہ میں بےطاقت ہو گیا اور کہا کہ پڑھئیے! پڑھئیے! «اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم * الذي علم بالقلم‏» اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے سب کو پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے، آپ پڑھئیے اور آپ کا رب کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے سے آیت «علم الإنسان ما لم يعلم‏» تک۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پانچ آیات کو لے کر واپس گھر تشریف لائے اور گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھے اور گردن کا گوشت پھڑک (حرکت کر) رہا تھا۔ آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو! مجھے چادر اڑھا دو! چنانچہ انہوں نے آپ کو چادر اڑھا دی۔ جب گھبراہٹ آپ سے دور ہوئی تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا اب کیا ہو گا مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے پھر آپ نے سارا واقعہ انہیں سنایا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایسا ہرگز نہ ہو گا، آپ کو خوشخبری ہو، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا اور آپ کے والد کے بھائی تھے وہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے جس طرح اللہ نے چاہا انہوں نے انجیل بھی عربی میں لکھی تھی۔ وہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا چچا اپنے بھتیجے کا حال سنئیے۔ ورقہ نے کہا بیٹے! تم نے کیا دیکھا ہے؟ آپ نے سارا حال سنایا جو کچھ آپ نے دیکھا تھا۔ اس پر ورقہ نے کہا یہی وہ ناموس (جبرائیل علیہ السلام) ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے تھے۔ کاش میں تمہاری نبوت کے زمانہ میں جوان اور طاقتور ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہ جاتا، پھر ورقہ نے کچھ اور کہا کہ جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا واقعی یہ لوگ مجھے مکہ سے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں، جو دعوت آپ لے کر آئے ہیں اسے جو بھی لے کر آیا تو اس سے عداوت ضرور کی گئی۔ اگر میں آپ کی نبوت کے زمانہ میں زندہ رہ گیا تو میں ضرور بھرپور طریقہ پر آپ کا ساتھ دوں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور کچھ دنوں کے لیے وحی کا آنا بھی بند ہو گیا۔ آپ وحی کے بند ہو جانے کی وجہ سے غمگین رہنے لگے۔

Share this: