احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

10: 10- بَابُ التَّبْكِيرِ إِلَى الْعِيدِ:
باب: عید کی نماز کے لیے سویرے جانا۔
وقال عبد الله بن بسر إن كنا فرغنا في هذه الساعة وذلك حين التسبيح.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن بسر صحابی نے (ملک شام میں امام کے دیر سے نکلنے پر اعتراض کیا اور) فرمایا کہ ہم تو نماز سے اس وقت فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یعنی جس وقت نفل نماز پڑھنا درست ہوتا ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 968
حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا شعبة، عن زبيد، عن الشعبي، عن البراء، قال: خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر، قال:"إن اول ما نبدا به في يومنا هذا ان نصلي، ثم نرجع فننحر، فمن فعل ذلك فقد اصاب سنتنا ومن ذبح قبل ان يصلي فإنما هو لحم عجله لاهله ليس من النسك في شيء، فقام خالي ابو بردة بن نيار فقال: يا رسول الله انا ذبحت قبل ان اصلي وعندي جذعة خير من مسنة، قال: اجعلها مكانها او قال اذبحها، ولن تجزي جذعة عن احد بعدك".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید سے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن سب سے پہلے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے پھر (خطبہ کے بعد) واپس آ کر قربانی کرنی چاہیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ ایک ایسا گوشت ہو گا جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے تیار کر لیا ہے، یہ قربانی قطعاً نہیں۔ اس پر میرے ماموں ابوبردہ بن نیار نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا۔ البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دانت نکلی بکری سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں اسے سمجھ لو یا یہ فرمایا کہ اسے ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ ایک سال کی پٹھیا کسی کے لیے کافی نہیں ہو گی۔

Share this: