احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

6: 6- سورة الأَنْعَامِ:
باب: سورۃ انعام۔
قال ابن عباس:"ثم لم تكن فتنتهم: معذرته، معروشات: ما يعرش من الكرم وغير ذلك، حمولة: ما يحمل عليها، وللبسنا: لشبهنا لانذركم به اهل مكة، يناون: يتباعدون تبسل تفضح، ابسلوا: افضحوا، باسطو ايديهم: البسط الضرب، وقوله استكثرتم: من الإنس اضللتم كثيرا مما، ذرا من الحرث: جعلوا لله من ثمراتهم ومالهم نصيبا وللشيطان والاوثان نصيبا اكنة واحدها كنان، اما اشتملت: يعني هل تشتمل إلا على ذكر او انثى، فلم تحرمون بعضا وتحلون بعضا، مسفوحا: مهراقا، صدف: اعرض، ابلسوا: اويسوا، وابسلوا: اسلموا، سرمدا: دائما، استهوته: اضلته، تمترون: تشكون، وقر: صمم واما الوقر فإنه الحمل، اساطير: واحدها اسطورة وإسطارة وهي الترهات الباساء من الباس ويكون من البؤس، جهرة: معاينة الصور جماعة صورة كقوله سورة وسور ملكوت ملك مثل رهبوت خير من رحموت، ويقول ترهب خير من ان ترحم وإن تعدل تقسط لا يقبل منها في ذلك اليوم، جن: اظلم تعالى علا يقال على الله حسبانه اي حسابه، ويقال حسبانا مرامي ورجوما للشياطين مستقر في الصلب ومستودع: في الرحم القنو العذق والاثنان قنوان والجماعة ايضا قنوان مثل صنو وصنوان.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ثم لم تكن فتنتهم‏» کا معنی پھر ان کا اور کوئی عذر نہ ہو گا۔ «معروشات‏» کا معنی ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور وغیرہ (جن کی بیل ہوتی ہے)۔ «حمولة‏» کا معنی «لدو» یعنی بوجھ لادنے کے جانور۔ «وللبسنا‏» کا معنی ہم شبہ ڈال دیں گے۔ «ينأون‏» کا معنی دور ہو جاتے ہیں۔ «تبسل» کا معنی رسوا کیا جائے۔ «أبسلوا‏» رسوا کئے گئے۔ «باسطو أيديهم‏» میں «بسط» کے معنی مارنا۔ «استكثرتم‏» یعنی تم نے بہتوں کو گمراہ کیا۔ «وجعلوا لله من ثمراتهم ومالهم نصيبا» یعنی انہوں نے اپنے پھلوں اور مالوں میں اللہ کا ایک حصہ اور شیطان اور بتوں کا ایک حصہ ٹھہرایا۔ «اكنة»، «كنان» کی جمع ہے یعنی پردہ۔ «أما اشتملت‏» یعنی کیا مادوں کی پیٹ میں نر مادہ نہیں ہوتے پھر تم ایک کو حرام ایک کو حلال کیوں بناتے ہو۔ اور «وما مسفوحا‏» یعنی بہایا گیا خون۔ «صدف‏» کا معنی منہ پھیرا۔ «أبلسوا‏» کا معنی ناامید ہوئے۔ «فاذاهم مبلسون» میں اور «أبسلوا‏ بما كسبوا» میں یہ معنی ہے کہ ہلاکت کے لیے سپرد کئے گئے۔ «سرمدا‏» کا معنی ہمیشہ۔ «استهوته‏» کا معنی گمراہ کیا۔ «يمترون‏» کا معنی شک کرتے ہو۔ «وقر‏» کا معنی بوجھ (جس سے کان بہرا ہو)۔ اور «وقر‏» بکسرہ واؤ معنی بوجھ جو جانور پر لادا جائے۔ «أساطير‏»، «أسطورة» اور «إسطارة» کی جمع ہے یعنی واہیات اور لغو باتیں۔ «البأساء»، «بأس» سے نکلا ہے یعنی سخت مایوس سے یعنی تکلیف اور محتاجی نیز «بؤس‏.‏» سے بھی آتا ہے اور محتاج۔ «جهرة‏» کھلم کھلا۔ «صور» ( «يوم ينقخ فى الصور») میں «صورت» کی جمع جیسے «سور»، «سورة» کی جمع۔ «ملكوت» سے «ملك» یعنی سلطنت مراد ہے۔ جیسے «رهبوت» اور «رحموت» مثل ہے «رهبوت» یعنی ڈر۔ «رحموت» (مہربانی) سے بہتر ہے اور کہتے ہیں تیرا ڈرایا جانا بچہ پر مہربانی کرنے سے بہتر ہے۔ «جن‏ عليه اليل» رات کی اندھیری اس پر چھا گئی۔ «حسبان» کا معنی «حساب»۔ کہتے ہیں اللہ پر اس کا «حسبان» یعنی «حساب» ہے اور بعضوں نے کہا «حسبان» سے مراد تیر اور شیطان پر پھینکنے کے حربے۔ «مستقر» باپ کی پشت۔ «مستودع‏» ماں کا پیٹ۔ «قنو» (خوشہ) گچھہ اس کا تثنیہ «قنوان» اور جمع بھی «قنوان» جیسے «صنو» اور «صنوان‏.» (یعنی جڑ ملے ہوئے درخت)۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4627
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"مفاتح الغيب خمس: إن الله عنده علم الساعة، وينزل الغيث، ويعلم ما في الارحام، وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کے خزانے پانچ ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ بیشک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور نہ کوئی یہ جان سکتا ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا، بیشک اللہ ہی علم والا ہے، خبر رکھنے والا ہے۔

Share this: