احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

4: 4- بَابُ: {قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ}:
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دیں کہ اے کتاب والو! ایسے قول کی طرف آ جاؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں“۔
سواء قصد.
‏‏‏‏ «سواء» کے معنی ایسی بات ہے جسے ہم اور تم دونوں تسلیم کرتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4553
حدثني إبراهيم بن موسى، عن هشام، عن معمر. ح وحدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال: حدثني ابن عباس، قال: حدثني ابو سفيان من فيه إلى في، قال: انطلقت في المدة التي كانت بيني وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فبينا انا بالشام إذ جيء بكتاب من النبي صلى الله عليه وسلم إلى هرقل، قال: وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى، فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل، قال: فقال هرقل: هل ها هنا احد من قوم هذا الرجل الذي يزعم انه نبي ؟ فقالوا: نعم، قال: فدعيت في نفر من قريش فدخلنا على هرقل فاجلسنا بين يديه، فقال: ايكم اقرب نسبا من هذا الرجل الذي يزعم انه نبي ؟ فقال: ابو سفيان، فقلت: انا، فاجلسوني بين يديه واجلسوا اصحابي خلفي، ثم دعا بترجمانه، فقال: قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل الذي يزعم انه نبي، فإن كذبني، فكذبوه، قال ابو سفيان: وايم الله لولا ان يؤثروا علي الكذب لكذبت، ثم قال لترجمانه: سله كيف حسبه فيكم ؟ قال: قلت: هو فينا ذو حسب، قال: فهل كان من آبائه ملك ؟ قال: قلت: لا، قال: فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل ان يقول ما قال ؟ قلت: لا، قال: ايتبعه اشراف الناس ام ضعفاؤهم ؟ قال: قلت: بل ضعفاؤهم، قال: يزيدون او ينقصون، قال: قلت: لا، بل يزيدون، قال: هل يرتد احد منهم عن دينه بعد ان يدخل فيه سخطة له ؟ قال: قلت: لا، قال: فهل قاتلتموه ؟ قال: قلت: نعم، قال: فكيف كان قتالكم إياه ؟ قال: قلت: تكون الحرب بيننا وبينه سجالا، يصيب منا ونصيب منه، قال: فهل يغدر ؟ قال: قلت: لا، ونحن منه في هذه المدة لا ندري ما هو صانع فيها، قال: والله ما امكنني من كلمة ادخل فيها شيئا غير هذه، قال: فهل قال هذا القول احد قبله ؟ قلت: لا، ثم قال لترجمانه: قل له إني سالتك عن حسبه فيكم، فزعمت انه فيكم ذو حسب، وكذلك الرسل تبعث في احساب قومها، وسالتك هل كان في آبائه ملك ؟ فزعمت ان لا، فقلت: لو كان من آبائه ملك قلت رجل يطلب ملك آبائه، وسالتك عن اتباعه اضعفاؤهم ام اشرافهم ؟ فقلت: بل ضعفاؤهم، وهم اتباع الرسل، وسالتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل ان يقول ما قال ؟ فزعمت ان لا، فعرفت انه لم يكن ليدع الكذب على الناس، ثم يذهب فيكذب على الله، وسالتك هل يرتد احد منهم عن دينه بعد ان يدخل فيه سخطة له ؟ فزعمت ان لا، وكذلك الإيمان إذا خالط بشاشة القلوب، وسالتك هل يزيدون ام ينقصون ؟ فزعمت انهم يزيدون، وكذلك الإيمان حتى يتم، وسالتك هل قاتلتموه ؟ فزعمت انكم قاتلتموه، فتكون الحرب بينكم وبينه سجالا، ينال منكم، وتنالون منه، وكذلك الرسل تبتلى، ثم تكون لهم العاقبة، وسالتك هل يغدر ؟ فزعمت انه لا يغدر، وكذلك الرسل لا تغدر، وسالتك هل قال احد هذا القول قبله ؟ فزعمت ان لا، فقلت: لو كان قال هذا القول احد قبله، قلت رجل ائتم بقول قيل قبله، قال: ثم قال: بم يامركم ؟ قال: قلت: يامرنا بالصلاة، والزكاة، والصلة، والعفاف، قال: إن يك ما تقول فيه حقا، فإنه نبي، وقد كنت اعلم انه خارج، ولم اك اظنه منكم، ولو اني اعلم اني اخلص إليه، لاحببت لقاءه، ولو كنت عنده لغسلت عن قدميه، وليبلغن ملكه ما تحت قدمي، قال ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقراه، فإذا فيه"بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم، سلام على من اتبع الهدى، اما بعد، فإني ادعوك بدعاية الإسلام، اسلم تسلم، واسلم يؤتك الله اجرك مرتين، فإن توليت، فإن عليك إثم الاريسيين، ويا اهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم، ان لا نعبد إلا الله، إلى قوله: اشهدوا بانا مسلمون، فلما فرغ من قراءة الكتاب، ارتفعت الاصوات عنده، وكثر اللغط، وامر بنا فاخرجنا، قال فقلت لاصحابي حين خرجنا: لقد امر امر ابن ابي كبشة، إنه ليخافه ملك بني الاصفر، فما زلت موقنا بامر رسول الله صلى الله عليه وسلم انه سيظهر، حتى ادخل الله علي الإسلام، قال الزهري: فدعا هرقل عظماء الروم، فجمعهم في دار له، فقال: يا معشر الروم، هل لكم في الفلاح والرشد آخر الابد ؟ وان يثبت لكم ملككم ؟ قال: فحاصوا حيصة حمر الوحش إلى الابواب، فوجدوها قد غلقت، فقال: علي بهم فدعا بهم، فقال: إني إنما اختبرت شدتكم على دينكم، فقد رايت منكم الذي احببت، فسجدوا له ورضوا عنه.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے معمر نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے امام زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے منہ در منہ بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح (صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق) تھی، میں (سفر تجارت پر شام میں) گیا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ (یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں (زیادہ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقیناً وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمن، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا (کے کفر کا بار بھی سب) تم پر ہو گا اور اے کتاب والو! ایک ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «اشهدوا بأنا مسلمون‏» تک جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر (ہرقل) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا اے رومیو! کیا تم ہمیشہ کے لیے اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے (اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کر لو) راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی۔ چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے۔

Share this: