احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: 5- بَابُ: {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ}:
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے“۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4650
حدثنا الحسن بن عبد العزيز، حدثنا عبد الله بن يحيى، حدثنا حيوة، عن بكر بن عمرو، عن بكير، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما: ان رجلا جاءه فقال: يا ابا عبد الرحمن، الا تسمع ما ذكر الله في كتابه وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا سورة الحجرات آية 9 إلى آخر الآية، فما يمنعك ان لا تقاتل كما ذكر الله في كتابه ؟ فقال: يا ابن اخي، اغتر بهذه الآية ولا اقاتل، احب إلي من ان اغتر بهذه الآية التي، يقول الله تعالى: ومن يقتل مؤمنا متعمدا سورة النساء آية 93 إلى آخرها، قال: فإن الله، يقول: وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة سورة البقرة آية 193، قال ابن عمر: قد فعلنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ كان الإسلام قليلا، فكان الرجل يفتن في دينه، إما يقتلونه، وإما يوثقونه حتى كثر الإسلام، فلم تكن فتنة، فلما راى انه لا يوافقه فيما يريد، قال: فما قولك في علي وعثمان ؟ قال ابن عمر:"ما قولي في علي وعثمان، اما عثمان، فكان الله قد عفا عنه، فكرهتم ان يعفو عنه، واما علي، فابن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم وختنه، واشار بيده، وهذه ابنته او بنته حيث ترون".
ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ نے، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے، انہوں نے بکر بن عمرو سے، انہوں نے بکیر سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص (حبان یا علاء بن عرار نامی) نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا‏» کہ جب مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑنے لگیں الخ، اس آیت کے بموجب تم (علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے) کیوں نہیں لڑتے جیسے اللہ نے فرمایا «فقاتلوا التي تبغيإ»۔ انہوں نے کہا میرے بھتیجے! اگر میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا‏» کی تاویل کروں۔ وہ شخص کہنے لگا اچھا اس آیت کو کیا کرو گے جس میں مذکور ہے «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة‏» کہ ان سے لڑو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا (واہ، واہ) یہ لڑائی تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کر چکے، اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور مسلمان کو اسلام اختیار کرنے پر تکلیف دی جاتی۔ قتل کرتے، قید کرتے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ مسلمان بہت ہو گئے اب فتنہ جو اس آیت میں مذکور ہے وہ کہاں رہا۔ جب اس شخص نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی طرح لڑائی پر اس کے موافق نہیں ہوتے تو کہنے لگا اچھا بتلاؤ علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ انہوں نے کہا ہاں یہ کہو تو سنو، علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں اپنا اعتقاد بیان کرتا ہوں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا جو قصور تم بیان کرتے ہو (کہ وہ جنگ احد میں بھاگ نکلے) تو اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کر دیا مگر تم کو یہ معافی پسند نہیں (جب تو اب تک ان پر قصور لگاتے جاتے ہو) اور علی رضی اللہ عنہ تو (سبحان اللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ داماد بھی تھے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا یہ ان کا گھر ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو۔

Share this: