احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

6: 6- بَابُ قَوْلِهِ: {حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ}:
باب: آیت کی تفسیر ”یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہو گئے کہ افسوس ہم لوگوں کی نگاہوں میں جھوٹے ہوئے“ آخر تک۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4695
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت له وهو يسالها عن قول الله تعالى: حتى إذا استياس الرسل سورة يوسف آية 110، قال: قلت: اكذبوا ام كذبوا ؟ قالت عائشة: كذبوا، قلت: فقد استيقنوا ان قومهم كذبوهم، فما هو بالظن ؟ قالت: اجل، لعمري لقد استيقنوا بذلك، فقلت لها: وظنوا انهم قد كذبوا، قالت: معاذ الله، لم تكن الرسل تظن ذلك بربها، قلت: فما هذه الآية ؟ قالت: هم اتباع الرسل الذين آمنوا بربهم وصدقوهم، فطال عليهم البلاء، واستاخر عنهم النصر، حتى إذا استياس الرسل ممن كذبهم من قومهم، وظنت الرسل ان اتباعهم قد كذبوهم، جاءهم نصر الله عند ذلك .
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا عروہ نے ان سے آیت «حتى إذا استيأس الرسل‏» کے متعلق پوچھا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا تھا (آیت میں) «كذبوا» (تخفیف کے ساتھ) یا «كذبوا» (تشدیدکے ساتھ) اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ «كذبوا» (تشدید کے ساتھ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ انبیاء تو یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر «ظنوا» سے کیا مراد ہے، انہوں نے کہا اپنی زندگی کی قسم بیشک پیغمبروں کو اس کا یقین تھا۔ میں نے کہا «كذبوا» تخفیف ذال کے ساتھ پڑھیں تو کیا قباحت ہے۔ انہوں نے کہا معاذاللہ! کہیں پیغمبر اپنے پروردگار کی نسبت ایسا گمان کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اچھا اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا ان کی تصدیق کی جب ان پر ایک مدت دراز تک آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر ان کے ایمان لانے سے ناامید ہو گئے جنہوں نے ان کو جھٹلایا تھا اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اب وہ بھی ہم کوجھوٹا سمجھنے لگیں گے، اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔

Share this: