احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

49: 49- بَابُ أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4280
حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، قال:"لما سار رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح، فبلغ ذلك قريشا، خرج ابو سفيان بن حرب، وحكيم بن حزام، وبديل بن ورقاء يلتمسون الخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاقبلوا يسيرون حتى اتوا مر الظهران، فإذا هم بنيران كانها نيران عرفة، فقال ابو سفيان: ما هذه لكانها نيران عرفة ؟ فقال بديل بن ورقاء: نيران بني عمرو، فقال ابو سفيان: عمرو اقل من ذلك، فرآهم ناس من حرس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فادركوهم، فاخذوهم، فاتوا بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاسلم ابو سفيان، فلما سار، قال للعباس:"احبس ابا سفيان عند حطم الخيل حتى ينظر إلى المسلمين"، فحبسه العباس، فجعلت القبائل تمر مع النبي صلى الله عليه وسلم تمر كتيبة كتيبة على ابي سفيان، فمرت كتيبة، قال: يا عباس من هذه ؟ قال: هذه غفار، قال: ما لي ولغفار ؟ ثم مرت جهينة، قال مثل ذلك، ثم مرت سعد بن هذيم، فقال مثل ذلك، ومرت سليم، فقال مثل ذلك، حتى اقبلت كتيبة لم ير مثلها، قال: من هذه ؟ قال: هؤلاء الانصار عليهم سعد بن عبادة معه الراية، فقال سعد بن عبادة: يا ابا سفيان، اليوم يوم الملحمة، اليوم تستحل الكعبة، فقال ابو سفيان: يا عباس، حبذا يوم الذمار، ثم جاءت كتيبة وهي اقل الكتائب فيهم رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه وراية النبي صلى الله عليه وسلم مع الزبير بن العوام، فلما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بابي سفيان، قال: الم تعلم ما قال سعد بن عبادة ؟ قال:"ما قال ؟"قال: كذا وكذا، فقال:"كذب سعد، ولكن هذا يوم يعظم الله فيه الكعبة، ويوم تكسى فيه الكعبة"، قال: وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تركز رايته بالحجون، قال عروة: واخبرني نافع بن جبير بن مطعم، قال: سمعت العباس، يقول للزبير بن العوام: يا ابا عبد الله، ها هنا امرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تركز الراية، قال: وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ خالد بن الوليد ان يدخل من اعلى مكة من كداء، ودخل النبي صلى الله عليه وسلم من كدا، فقتل من خيل خالد بن الوليد رضي الله عنه يومئذ رجلان: حبيش بن الاشعر، وكرز بن جابر الفهري".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو قریش کو اس کی خبر مل گئی تھی۔، چنانچہ ابوسفیان بن حرب ‘ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات کے لیے مکہ سے نکلے۔ یہ لوگ چلتے چلتے مقام مر الظہران پر جب پہنچے تو انہیں جگہ جگہ آگ جلتی ہوئی دکھائی دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مقام عرفات کی آگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا یہ آگ کیسی ہے؟ یہ عرفات کی آگ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس پر بدیل بن ورقاء نے کہا کہ یہ بنی عمرو (یعنی قباء کے قبیلے) کی آگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ بنی عمرو کی تعداد اس سے بہت کم ہے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ دستے نے انہیں دیکھ لیا اور ان کو پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے ‘ پھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے (مکہ کی طرف) بڑھے تو عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو ایسی جگہ پر روکے رکھو جہاں گھوڑوں کا جاتے وقت ہجوم ہو تاکہ وہ مسلمانوں کی فوجی قوت کو دیکھ لیں۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ انہیں ایسے ہی مقام پر روک کر کھڑے ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبائل کے دستے ایک ایک کر کے ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ایک دستہ گزرا تو انہوں نے پوچھا: عباس! یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ قبیلہ غفار ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ مجھے غفار سے کیا سروکار ‘ پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ان کے متعلق بھی انہوں نے یہی کہا ‘ قبیلہ سلیم گزرا تو ان کے متعلق بھی یہی کہا۔ آخر ایک دستہ سامنے آیا۔ اس جیسا فوجی دستہ نہیں دیکھا گیا ہو گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ انصار کا دستہ ہے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اس کے امیر ہیں اور انہیں کے ہاتھ میں (انصار کا عَلم ہے) سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوسفیان! آج کا دن قتل عام کا دن ہے۔ آج کعبہ میں بھی لڑنا درست کر دیا گیا ہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس پر بولے: اے عباس! (قریش کی ہلاکت و بربادی کا دن اچھا آ لگا ہے۔ پھر ایک اور دستہ آیا یہ سب سے چھوٹا دستہ تھا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عَلم زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اٹھائے ہوئے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے قریب سے گزرے تو انہوں نے کہا آپ کو معلوم نہیں ‘ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کیا کہہ گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ تو ابوسفیان نے بتایا کہ یہ یہ کہہ گئے ہیں کہ آپ قریش کا کام تمام کر دیں گے۔ (سب کو قتل کر ڈالیں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد نے غلط کہا ہے بلکہ آج کا دن وہ ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت اور زیادہ کر دے گا۔ آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ عروہ نے بیان کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ آپ کا عَلم مقام جحون میں گاڑ دیا جائے۔ عروہ نے بیان کیا اور مجھے نافع بن جبیر بن مطعم نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے کہا (فتح مکہ کے بعد) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہیں جھنڈا گاڑنے کے لیے حکم فرمایا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ مکہ کے بالائی علاقہ کداء کی طرف سے داخل ہوں اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کداء (نشیبی علاقہ) کی طرف سے داخل ہوئے۔ اس دن خالد رضی اللہ عنہ کے دستہ کے دو صحابی ‘ حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری شہید ہوئے تھے۔

Share this: