احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

5: 5- بَابُ {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا} إِلَى قَوْلِهِ: {أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الأَرْضِ}:
باب: آیت کی تفسیر ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلانے میں لگے رہتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی دیئے جائیں“ آخر آیت «أو ينفوا من الأرض» تک یعنی یا وہ جلا وطن کر دیئے جائیں۔
المحاربة لله الكفر به.
‏‏‏‏ «يحاربون» سے کفر کرنا مراد ہے۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4610
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري، حدثنا ابن عون، قال: حدثني سلمان ابو رجاء مولى ابي قلابة، عن ابي قلابة: انه كان جالسا خلف عمر بن عبد العزيز، فذكروا، وذكروا، فقالوا: وقالوا: قد اقادت بها الخلفاء فالتفت إلى ابي قلابة وهو خلف ظهره، فقال: ما تقول يا عبد الله بن زيد ؟ او قال: ما تقول يا ابا قلابة ؟ قلت: ما علمت نفسا حل قتلها في الإسلام إلا رجل زنى بعد إحصان، او قتل نفسا بغير نفس، او حارب الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، فقال عنبسة: حدثنا انس بكذا، وكذا، قلت: إياي حدث انس، قال: قدم قوم على النبي صلى الله عليه وسلم فكلموه، فقالوا: قد استوخمنا هذه الارض، فقال:"هذه نعم لنا تخرج فاخرجوا فيها فاشربوا من البانها، وابوالها"، فخرجوا فيها فشربوا من ابوالها، والبانها، واستصحوا ومالوا على الراعي، فقتلوه، واطردوا النعم، فما يستبطا من هؤلاء، قتلوا النفس، وحاربوا الله ورسوله، وخوفوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: سبحان الله، فقلت: تتهمني، قال: حدثنا بهذا انس، قال: وقال:"يا اهل كذا، إنكم لن تزالوا بخير ما ابقي هذا فيكم، او مثل هذا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلمان ابورجاء، ابوقلابہ کے غلام نے بیان کیا اور ان سے ابوقلابہ نے کہ وہ (امیرالمؤمنین) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے (مجلس میں قسامت کا ذکر آ گیا) لوگوں نے کہا کہ قسامت میں قصاص لازم ہو گا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا: عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوا اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا (پھر) اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو (مرتد ہو گیا ہو)۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو (کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھا) چنانچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے انہیں صحت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے) کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کرنا چاہا۔ عنبسہ نے اس پر کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ (نہیں) یہی حدیث انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔

Share this: