احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

1: 1- بَابُ: {يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا} زُمَرًا:
باب: آیت کی تفسیر ”وہ دن کہ جب صور پھونکا جائے گا تو تم گروہ ہو کر آؤ گے، «أفواجا» کے معنی «زمرا» یعنی گروہ گروہ کے ہیں“۔
قال مجاهد: لا يرجون حسابا: لا يخافونه، لا يملكون منه خطابا: لا يكلمونه إلا ان ياذن لهم صوابا حقا في الدنيا وعمل به، وقال ابن عباس: وهاجا: مضيئا، وقال غيره: غساقا غسقت عينه، ويغسق الجرح يسيل كان الغساق والغسيق واحد، عطاء حسابا: جزاء كافيا اعطاني ما احسبني اي كفاني.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «لا يرجون حسابا‏» کا معنی یہ ہے کہ وہ اعمال کے (حساب کتاب) سے نہیں ڈرتے۔ «لا يملكون منه خطابا‏» یعنی ڈر کے مارے اس سے بات نہ کر سکیں گے مگر جب ان کو بات کرنے کی اجازت ملے گی۔ «صوابا» یعنی جس نے دنیا میں سچی بات کہی تھی اس پر عمل کیا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وهاجا‏» روشن، چمکتا ہوا۔ اوروں نے کہا «غساقا»، «غسقت»، «عيينه» سے نکلا ہے یعنی اس کی آنکھ تاریک ہو گئی، اسی سے ہے۔ «يغسق لجراح» یعنی زخم بہ رہا ہے «غساق» اور «غسيق» دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی دوزخیوں کا خون پیپ۔ «عطاء حسابا‏» پورا بدلہ عرب لوگ کہتے ہیں «أعطاني ما أحسبني‏.‏» یعنی مجھ کو اتنا دیا جو کافی ہو گیا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4935
حدثني محمد، اخبرنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"ما بين النفختين اربعون، قال: اربعون يوما، قال: ابيت، قال: اربعون شهرا، قال: ابيت، قال: اربعون سنة، قال: ابيت، قال: ثم ينزل الله من السماء ماء، فينبتون كما ينبت البقل، ليس من الإنسان شيء إلا يبلى إلا عظما واحدا وهو عجب الذنب، ومنه يركب الخلق يوم القيامة".
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان چالیس فاصلہ ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس سال مراد ہیں؟ کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا۔ جس کی وجہ سے تمام مردے جی اٹھیں گے جیسے سبزیاں پانی سے اگ آتی ہیں۔ اس وقت انسان کا ہر حصہ گل چکا ہو گا۔ سوا ریڑھ کی ہڈی کے اور اس سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔

Share this: