احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

16: 16- بَابُ رَفْعِ الأَيْدِي فِي الصَّلاَةِ لأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ:
باب: نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1218
حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه , قال:"بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم ان بني عمرو بن عوف بقباء كان بينهم شيء فخرج يصلح بينهم في اناس من اصحابه، فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت الصلاة فجاء بلالإلى ابي بكر رضي الله عنهما , فقال: يا ابا بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حبس وقد حانت الصلاة، فهل لك ان تؤم الناس ؟ قال: نعم، إن شئت، فاقام بلال الصلاة وتقدم ابو بكر رضي الله عنه فكبر للناس، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف يشقها شقا حتى قام في الصف فاخذ الناس في التصفيح , قال سهل: التصفيح هو التصفيق، قال: وكان ابو بكر رضي الله عنه لا يلتفت في صلاته، فلما اكثر الناس التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشار إليه يامره ان يصلي , فرفع ابو بكر رضي الله عنه يده فحمد الله، ثم رجع القهقرى وراءه حتى قام في الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى للناس، فلما فرغ اقبل على الناس , فقال: يا ايها الناس ما لكم حين نابكم شيء في الصلاة اخذتم بالتصفيح، إنما التصفيح للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله، ثم التفت إلى ابي بكر رضي الله عنه , فقال: يا ابا بكر ما منعك ان تصلي للناس حين اشرت إليك ؟ , قال ابو بكر: ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ قباء کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح صفائی کے لیے ٹھہر گئے۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا تو بلال رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے اور نماز کا وقت ہو گیا، تو کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اگر تم چاہتے ہو تو پڑھا دوں گا۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نیت باندھ لی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے، لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے شروع کر دیئے۔ (سہل نے کہا کہ «تصفيح» کے معنی «تصفيق» کے ہیں) آپ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے بہت دستکیں دیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلے آئے اور صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! یہ کیا بات ہے کہ جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو۔ یہ مسئلہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ تمہیں اگر نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو «سبحان الله» کہا کرو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ابوبکر! میرے کہنے کے باوجود تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔

Share this: