احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

2: 2- بَابُ قَوْلِهِ: {فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ}:
باب: آیت «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» کی تفسیر۔
قال ابن عباس: قراناه: بيناه، فاتبع: اعمل به.
‏‏‏‏ یعنی پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے تابع ہو جایا کریں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «قرأناه» کے معنی یہ ہیں ہم نے اسے بیان کیا اور «فاتبع» کا معنی یہ کہ تم اس پر عمل کرو۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 4929
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن موسى بن ابي عائشة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قوله: لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل جبريل بالوحي وكان مما يحرك به لسانه وشفتيه، فيشتد عليه وكان يعرف منه، فانزل الله الآية التي في لا اقسم بيوم القيامة سورة القيامة آية 1 لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16 إن علينا جمعه وقرءانه سورة القيامة آية 17، قال: علينا ان نجمعه في صدرك وقرآنه فإذا قراناه فاتبع قرءانه سورة القيامة آية 18، فإذا انزلناه فاستمع ثم إن علينا بيانه سورة القيامة آية 19 علينا ان نبينه بلسانك، قال: فكان إذا اتاه جبريل اطرق فإذا ذهب قراه كما وعده الله عز وجل اولى لك فاولى توعد".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں کے متعلق بتلایا کہ جب جبرائیل آپ پر وحی نازل کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے اور آپ پر یہ بہت سخت گزرتا، یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة‏» میں ہے یعنی «لا تحرك به لسانك» الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں۔ یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوانا، پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے یاد کرتے جایا کریں۔ یعنی جب ہم وحی نازل کریں تو آپ غور سے سنیں۔ پھر اس کا بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی لوگوں کے سامنے بیان کرا دیں۔ بیان کیا کہ چنانچہ اس کے بعد جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے اور جب چلے جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ آیت «أولى لك فأولى‏» میں «تهديد» یعنی ڈرانا دھمکانا مراد ہے۔

Share this: