احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

97: 97- بَابُ مَنْ أَذَّنَ وَأَقَامَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا:
باب: جس نے کہا کہ ہر نماز کے لیے اذان اور تکبیر کہنی چاہئے اس کی دلیل۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 1675
حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا زهير، حدثنا ابو إسحاق، قال: سمعت عبد الرحمن بن يزيد، يقول: حج عبد الله رضي الله عنه، فاتينا المزدلفة حين الاذان بالعتمة او قريبا من ذلك، فامر رجلا فاذن واقام، ثم صلى المغرب وصلى بعدها ركعتين، ثم دعا بعشائه فتعشى، ثم امر ارى فاذن واقام، قال عمرو: لا اعلم الشك إلا من زهير، ثم صلى العشاء ركعتين، فلما طلع الفجر , قال:"إن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يصلي هذه الساعة إلا هذه الصلاة في هذا المكان من هذا اليوم"، قال عبد الله: هما صلاتان تحولان عن وقتهما، صلاة المغرب بعد ما ياتي الناس المزدلفة، والفجر حين يبزغ الفجر", قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم يفعله.
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسحٰق عمرو بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حج کیا، آپ کے ساتھ تقریباً عشاء کی اذان کے وقت ہم مزدلفہ میں بھی آئے، آپ نے ایک شخص کو حکم دیا اس نے اذان اور تکبیر کہی اور آپ نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر دو رکعت (سنت) اور پڑھی اور شام کا کھانا منگوا کر کھایا۔ میرا خیال ہے (راوی حدیث زہیر کا) کہ پھر آپ نے حکم دیا اور اس شخص نے اذان دی اور تکبیر کہی عمرو (راوی حدیث) نے کہا میں یہی سمجھتا ہوں کہ شک زہیر (عمرو کے شیخ) کو تھا، اس کے بعد عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی۔ جب صبح صادق ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز (فجر) کو اس مقام اور اس دن کے سوا اور کبھی اس وقت (طلوع فجر ہوتے ہی) نہیں پڑھتے تھے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ صرف دو نمازیں (آج کے دن) اپنے معمولی وقت سے ہٹا دی جاتی ہیں۔ جب لوگ مزدلفہ آتے ہیں تو مغرب کی نماز (عشاء کے ساتھ ملا کر) پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز طلوع فجر کے ساتھ ہی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔

Share this: