احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

22: 22- بَابُ الْقَسَامَةِ:
باب: قسامت کا بیان۔
وقال الاشعث بن قيس، قال النبي صلى الله عليه وسلم: شاهداك او يمينه، وقال ابن ابي مليكة: لم يقد بها معاوية، وكتب عمر بن عبد العزيز إلى عدي بن ارطاة، وكان امره على البصرة، في قتيل وجد عند بيت من بيوت السمانين، إن وجد اصحابه بينة، وإلا فلا تظلم الناس، فإن هذا لا يقضى فيه إلى يوم القيامة.
اور اشعث بن قیس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے دو گواہ لاؤ ورنہ اس (مدعیٰ علیہ) کی قسم (پر فیصلہ ہو گا) ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا قسامت میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے قصاص نہیں لیا (صرف دیت دلائی) اور عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن ارطاۃ کو جنہیں انہوں نے بصرہ کا امیر بنایا تھا ایک مقتول کے بارے میں جو تیل بیچنے والوں کے محلہ کے ایک گھر کے پاس پایا گیا تھا لکھا کہ اگر مقتول کے اولیاء کے پاس کوئی گواہی ہو (تو فیصلہ کیا جا سکتا ہے) ورنہ خلق اللہ پر ظلم نہ کرو کیونکہ ایسے معاملہ کا جس پر گواہ نہ ہوں قیامت تک فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 6898
حدثنا ابو نعيم، حدثنا سعيد بن عبيد، عن بشير بن يسار، زعم ان رجلا من الانصار يقال له: سهل بن ابي حثمة اخبره:"ان نفرا من قومه انطلقوا إلى خيبر، فتفرقوا فيها، ووجدوا احدهم قتيلا، وقالوا للذي وجد فيهم: قد قتلتم صاحبنا، قالوا: ما قتلنا ولا علمنا قاتلا، فانطلقوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله انطلقنا إلى خيبر، فوجدنا احدنا قتيلا، فقال:"الكبر الكبر، فقال: لهم تاتون بالبينة على من قتله، قالوا: ما لنا بينة، قال: فيحلفون، قالوا: لا نرضى بايمان اليهود، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبطل دمه فوداه مائة من إبل الصدقة".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن عبید نے بیان کیا، ان سے بشیر بن یسار نے، وہ کہتے تھے کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب سہل بن ابی حثمہ نے انہیں خبر دی کہ ان کی قوم کے کچھ لوگ خیبر گئے اور (اپنے اپنے کاموں کے لیے) مختلف جگہوں میں الگ الگ گئے پھر اپنے میں کے ایک شخص کو مقتول پایا۔ جنہیں وہ مقتول ملے تھے، ان سے ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی کو تم نے قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ ہم نے قتل کیا اور نہ ہمیں قاتل کا پتہ معلوم ہے؟ پھر یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: یا رسول اللہ! ہم خیبر گئے اور پھر ہم نے وہاں اپنے ایک ساتھی کو مقتول پایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں جو بڑا ہے وہ بات کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاتل کے خلاف گواہی لاؤ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی گواہی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر یہ (یہودی) قسم کھائیں گے (اور ان کی قسم پر فیصلہ ہو گا) انہوں نے کہا کہ یہودیوں کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند نہیں فرمایا کہ مقتول کا خون رائیگاں جائے چنانچہ آپ نے صدقہ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ (خود ہی) دیت میں دیئے۔

Share this: