احادیث کے تمام کتب میں حدیث تلاش کیجئیے

109: 109- بَابُ الْمَرْأَةِ تَطْرَحُ عَنِ الْمُصَلِّي شَيْئًا مِنَ الأَذَى:
باب: اس بارے میں کہ اگر عورت نماز پڑھنے والے سے گندگی ہٹا دے (تو مضائقہ نہیں ہے)۔
صحيح بخاري حدیث نمبر: 520
حدثنا احمد بن إسحاق السورماري، قال: حدثنا عبيد الله بن موسى، قال: حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال:"بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يصلي عند الكعبة وجمع قريش في مجالسهم، إذ قال قائل منهم: الا تنظرون إلى هذا المرائي، ايكم يقوم إلى جزور آل فلان فيعمد إلى فرثها ودمها وسلاها فيجيء به، ثم يمهله حتى إذا سجد وضعه بين كتفيه فانبعث اشقاهم، فلما سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم وضعه بين كتفيه، وثبت النبي صلى الله عليه وسلم ساجدا، فضحكوا حتى مال بعضهم إلى بعض من الضحك، فانطلق منطلق إلى فاطمة عليها السلام وهي جويرية فاقبلت تسعى، وثبت النبي صلى الله عليه وسلم ساجدا، حتى القته عنه واقبلت عليهم تسبهم، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، قال: اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش، ثم سمى اللهم عليك بعمرو بن هشام، وعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وامية بن خلف، وعقبة بن ابي معيط، وعمارة بن الوليد، قال عبد الله: فوالله لقد رايتهم صرعى يوم بدر، ثم سحبوا إلى القليب قليب بدر، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: واتبع اصحاب القليب لعنة".
ہم سے احمد بن اسحاق سرماری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسرائیل نے ابواسحاق کے واسطہ سے بیان کیا۔ انہوں نے عمرو بن میمون سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ قریش اپنی مجلس میں (قریب ہی) بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ان میں سے ایک قریشی بولا اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا کوئی ہے جو فلاں قبیلہ کے ذبح کئے ہوئے اونٹ کا گوبر، خون اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ پھر یہاں انتظار کرے۔ جب یہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے (چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے۔ مشرکین (یہ دیکھ کر) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ ایک شخص (غالباً ابن مسعود رضی اللہ عنہ) فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ وہ ابھی بچہ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا دوڑتی ہوئی آئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی سجدہ ہی میں تھے۔ پھر (فاطمہ رضی اللہ عنہا نے) ان غلاظتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر کے فرمایا یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ پھر نام لے کر کہا یا اللہ! عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! میں نے ان سب کو بدر کی لڑائی میں مقتول پایا۔ پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنویں والے اللہ کی رحمت سے دور کر دئیے گئے۔

Share this: